واشنگٹن —
کہتے ہیں، ’’دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘ حال ہی میں امریکی یونیورسٹیوں میں کی جانے والی ایک تحقیق کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ’دینے‘ کا یہ رجحان انسانی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔
تین امریکی یونیورسٹیوں سے وابستہ تحقیق دانوں نے ایسے ساڑھے آٹھ سو افراد کی نشاندہی کی جنہیں اپنی زندگی کے گذشتہ برسوں میں ذہنی تناؤ، شدید بیماری، مالی مشکلات یا پھر کسی قریبی عزیز کی موت کا صدمہ جھیلنا پڑا۔ ان افراد کو تحقیق کا حصہ بنایا گیا اور ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کتنا وقت اپنے دوستوں، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی مدد میں گزارا۔ ضروری نہیں تھا کہ یہ مدد مالی طور پر کی گئی ہو بلکہ اس تحقیق میں مدد کے چھوٹے چھوٹے مظاہروں کو بھی نوٹ کیا گیا۔ جیسا کہ کسی کو گاڑی میں لفٹ دینا، لوگوں کے روزمرہ امور میں ان کی مدد کرانا یا پھر دوست احباب کے بچوں کو سنبھالنا وغیرہ۔
اس تحقیق کی سربراہی یونیورسٹی آف بفلو سے منسلک مائیکل جے پالن کر رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ، ’’اس پانچ سالہ تحقیق سے یہ نتیجہ سامنے آیا کہ جن افراد نے دوسرے لوگوں کی مدد کی تھی ان میں موت کی شرح ان لوگوں کی نسبت خاصی کم تھی جنہوں نے کسی کی مدد نہیں کی تھی۔‘‘
اس تحقیق کے نتائج میں یہ بھی سامنے آیا کہ ذہنی دباؤ اور موت کے درمیان تعلق کا انحصار بہت حد تک انسان کے سماجی روئیے پر ہے۔ ایسے لوگ جو ملنسار ہوں، لوگوں کی مدد کرتے ہوں اور دوسروں سے گھلتے ملتے ہوں، ان میں موت کی شرح ان لوگوں کی نسبت کم ہوتی ہے جو معاشرے سے الگ تھلگ رہنا پسند کرتے ہیں اور کسی کی مدد کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
مائیکل جے پالن کا کہنا تھا کہ ایک معروف سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی یہ رپورٹ سماجی ماحول اور صحت کے درمیان تعلق کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔
تین امریکی یونیورسٹیوں سے وابستہ تحقیق دانوں نے ایسے ساڑھے آٹھ سو افراد کی نشاندہی کی جنہیں اپنی زندگی کے گذشتہ برسوں میں ذہنی تناؤ، شدید بیماری، مالی مشکلات یا پھر کسی قریبی عزیز کی موت کا صدمہ جھیلنا پڑا۔ ان افراد کو تحقیق کا حصہ بنایا گیا اور ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کتنا وقت اپنے دوستوں، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی مدد میں گزارا۔ ضروری نہیں تھا کہ یہ مدد مالی طور پر کی گئی ہو بلکہ اس تحقیق میں مدد کے چھوٹے چھوٹے مظاہروں کو بھی نوٹ کیا گیا۔ جیسا کہ کسی کو گاڑی میں لفٹ دینا، لوگوں کے روزمرہ امور میں ان کی مدد کرانا یا پھر دوست احباب کے بچوں کو سنبھالنا وغیرہ۔
اس تحقیق کی سربراہی یونیورسٹی آف بفلو سے منسلک مائیکل جے پالن کر رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ، ’’اس پانچ سالہ تحقیق سے یہ نتیجہ سامنے آیا کہ جن افراد نے دوسرے لوگوں کی مدد کی تھی ان میں موت کی شرح ان لوگوں کی نسبت خاصی کم تھی جنہوں نے کسی کی مدد نہیں کی تھی۔‘‘
اس تحقیق کے نتائج میں یہ بھی سامنے آیا کہ ذہنی دباؤ اور موت کے درمیان تعلق کا انحصار بہت حد تک انسان کے سماجی روئیے پر ہے۔ ایسے لوگ جو ملنسار ہوں، لوگوں کی مدد کرتے ہوں اور دوسروں سے گھلتے ملتے ہوں، ان میں موت کی شرح ان لوگوں کی نسبت کم ہوتی ہے جو معاشرے سے الگ تھلگ رہنا پسند کرتے ہیں اور کسی کی مدد کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
مائیکل جے پالن کا کہنا تھا کہ ایک معروف سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی یہ رپورٹ سماجی ماحول اور صحت کے درمیان تعلق کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔