بلوچستان اسمبلی کے ارکان نے کثرتِ رائے سے جام کمال خان کو آئندہ پانچ سال کے لیے صوبے کا وزیرِ اعلیٰ منتخب کرلیا ہے۔
نئے قائدِ ایوان کا انتخاب صوبائی اسمبلی کے ہفتے کو ہونے والے اجلاس میں کیا گیا جس کی صدارت نومنتخب اسپیکر عبدالقدوس بزنجو نے کی۔
نتائج کے مطابق جام کمال خان کو 39 ووٹ ملے جب کہ ان کے حریف یونس عزیز زہری نے 20 ووٹ حاصل کیے۔
وزیرِ اعلیٰ کے عہدے کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) اور اُس کی پانچ اتحادی جماعتوں نے بی اے پی کے سربراہ جام کمال خان کو قائدِ ایوان کے لیے نامزد کیا تھا۔
حزبِ مخالف کی جماعتوں متحدہ مجلسِ عمل اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کی طرف سے یونس عزیز زہری وزیرِ اعلیٰ کے عہدے کے اُمیدوار تھے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان مسلم لیگ (ق) سے ٹوٹنے والے ارکانِ صوبائی اسمبلی نے مارچ 2018ء میں بلوچستان عوامی پارٹی بنائی تھی اور جام کمال خان 17 مئی 2018ء کو پارٹی کے صدر منتخب ہوئے تھے۔
پچیس جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں بی اے پی نے بلوچستان اسمبلی میں 14 نشستیں حاصل کی تھیں۔
بعد ازاں چار آزاد ارکانِ اسمبلی کی شمولیت اور خواتین و اقلیتوں کے لیے مختص نشستوں کے ملنے کے بعد بی اے پی 65 رکنی اسمبلی میں 23 ارکان کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بن گئی تھی۔
بی اے پی کو پاکستان تحریکِ انصاف کے سات، عوامی نیشنل پارٹی کے چار، بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے تین اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے دو ارکان کی حمایت بھی حاصل ہے۔
نومنتخب وزیرِ اعلیٰ امکان ہے کہ ہفتے کی شام یا اتوار کو اپنے عہدے کا حلف اُٹھائیں گے۔
جام کمال یکم جنوری 1973 کو ضلع لسبیلہ کے معروف جام عالیانی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔
وہ جام خاندان کی تیسرے فرد ہیں جو صوبے کے وزیرِ اعلیٰ بنے ہیں۔ ان سے پہلے اُن کے والد جام محمد یوسف 2002ء سے 2007ء تک اور اُن کے دادا جام غلام قادر 1985ء میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات کے بعد وزیرِ اعلیٰ رہ چکے ہیں۔