رسائی کے لنکس

'ایک ووٹ کی پرچی پر ناز ہے تمہیں'


یہ تھے وہ الفاظ، جو پاکستان مسلم لیگ نواز کے امیدوار قومی اسمبلی اور سابق صدر فاروق لغاری مرحوم کے فرزند جمال لغاری نے اپنے حلقہ این اے 191 ڈیرہ غازی خان کے علاقے رونگھن میں اس وقت ادا کیے، جب نوجوان ووٹروں نے ان کی پانچ برس کی کارکردگی پر سوال اٹھائے۔

حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں جمال لغاری صاحب نے اپنے ناراض ووٹروں سے ایک سوال یہ بھی پوچھا، کیا یہ 42 کلومیٹر لمبی سڑک میں نے نہیں دی؟

ووٹروں نے جواب دیا، جی نہیں، یہ ہمیں جمہوریت نے دی ہے۔

جمال لغاری کی اس ویڈیو پر نوجوانوں کی جانب سے سوشل میڈیا میں بہت دلچسپ تبصرے آ رہے ہیں۔

صحافی وسیم عباسی کہتے ہیں کہ یہ جمہوریت کا حسن ہے۔ ایسے لیڈروں کا جمہوریت میں ایسا ہی احتساب ہوتا ہے اور ہونا چاہیے۔ مگر ذرا سوچیئے کبھی کوئی ڈکٹیٹر عوام سے ایسے بے عزت ہوا؟ نہیں نا کیوں کہ ان کو ووٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔

سماجی کارکن اور وکیل شمائلہ شاہانی کہتی ہیں کہ یہ جمہوریت کا تسلسل ہی ہے جس کی وجہ سے آج نوجوان سرداروں سے جواب مانگنے کے قابل ہوئے ہیں۔

ن لیگ کا آئندہ انتخابات کے لئے نعرہ’ ووٹ کو عزت دو‘ ہے جب کہ اس ویڈیو میں اسی پارٹی کے امیدوار جمال لغاری ووٹ کو صرف ایک پرچی کہتے پائے گئے ہیں۔ اس صورت حال پر سوشل میڈیا صارف رفیع عامر کہتے ہیں کہ ن لیگ جمال لغاری کو ووٹ کی عزت بتائے جو آج اپنے حلقے کے ایک ووٹر سے پوچھ رہے تھے کہ ایک ووٹ کی پرچی پر اتنا ناز؟

طوبہ سعید کہتی ہیں کہ اس بات کو مزید پھیلانا چاہئے، ہمیں ان لوگوں کو کبھی ووٹ نہیں دینا چاہئے جو لوگوں سے ایسی تحقیر سے بات کریں اور ووٹ کو محض ایک پرچی سمجھیں اور یہ سمجھیں کہ انہیں ووٹ دینا ان کے قبیلے کے لوگوں کا فرض ہے۔

سوشل میڈیا پر متحرک انسانی حقوق کی نوجوان کارکن مینا گبینا نے لکھا کہ جمہوریت میں ایسے آمروں کو رد کر دینا چاہئے، جمال لغاری کو اس جاگیردارانہ طرز عمل پر شرم آنی چاہئے۔

سوشل میڈیا صارف حسن نے کہا کہ کوئی جمال لغاری کو بتائے کہ یہ جمہوریت ہے، بادشاہت نہیں۔ یہ 42 کلومیٹر لمبی سڑک جمال لغاری نے علاقے کے لوگوں کو نہیں دی بلکہ یہ لوگوں کے ٹیکس کی رقم ہے جو ان پر خرچ کی گئی۔

صحافی فائزہ داؤد اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ یہ ویڈیو ہمیں اس ڈراؤنے سوال کا جواب دیتی ہے کہ الیکشن 2018 میں الیکٹیبلز سے کیا توقع رکھی جائے؟ پاکستان مسلم لیگ ن کے جمال لغاری نے ہمیں سمجھایا ہے کہ آخر کیوں جاگیردار طبقہ ملک میں کبھی بھی جمہوریت نہیں لا سکتا۔ یہ لوگ چاہے پاکستان تحریک انصاف میں جائیں یا کسی اور جماعت میں یہ رہیں گے جاگیردار ہی۔

حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے الیکٹیبلز کے سیاسی پارٹیاں تبدیل کرنے پر بہت بحث ہو رہی ہے۔ یہ وہ تگڑے امیدوار ہیں جو اپنے حلقے میں ووٹرز کو موبلائز کرنے اور انتخابی داؤ پیچ سے واقف ہیں اور خاندان برادری، جاگیرداری یا سرداری کی بنیاد پر محض اپنے بل بوتے پر الیکشن جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جہاں جولائی کے انتخابات سے پہلے ایسے الیکٹیبلز کا پاکستان تحریک انصاف کی طرف جوق در جوق اڑان بھرنا عمران خان کی انتخابات میں کامیابی کے لئے نیک شگون سمجھا جا رہا ہے وہیں ان کی اپنی پارٹی میں ایسے عناصر پر انحصار کرنے اور الیکٹیبلز کو ٹکٹیں بانٹنے پر بھرپور ردعمل بھی ظاہر ہو رہا ہے۔

نئی ٹیکنالوجی کیسے جاگیرداری نظام کی سیاسی اجارہ داری پر زک لگا رہی ہے اس پر معروف صحافی مشرف زیدی ٹویٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جمال لغاری کے ساتھ جو ہوا، وہ اور ہو گا، اور ہر جگہ اور ہر نشت پر ہو گا۔ جاگیرداری کی بنیاد پر ووٹ کا حصول اب بہت مشکل ہو چکا ہے۔ یہ کسی جماعت، یا گروہ کا فائدہ یا نقصان نہیں، یہ ایک معاشی اور معاشرتی حقیقت ہے۔ اور اس عمل کو توانائی آج کل کی جدید ٹیکنالوجی سے ملتی ہے۔

پاکستان کی نوجوان آبادی سوشل میڈیا کی بنیاد پر سیاسی طور پر باشعور ہو رہی ہے۔ سیاسی قیادت سے سوال کئے جا رہے ہیں۔ حلقے کے الیکٹیبلز ووٹ کی پرچی کے لئے جب گلی گلی جا رہے ہیں تو نوجوان ان سے ان کی کارکردگی پوچھ رہے ہیں۔ مگر جیسا کہ ڈیرہ غازی خان کے نوجوانوں نے جمال لغاری سے کہا، جاگیرداروں اور الیکٹیبلز کو جواب 25 جولائی کو ووٹ کی پرچی کے ذریعے ہی دیا جا سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG