ٹوکیو سے بدھ کے روز بوئنگ 787 اپنی پہلی کمرشل پرواز کے لیے روانہ ہوا۔ اس جدید ترین طیارے کا تین برس سے انتظار کیا جارہاتھا۔
پہلی پرواز پر ہانگ کانگ جانے کے لیے تقریباً ایک سومسافروں نے خصوصی قیمت پر ٹکٹیں خریدی ہیں ، جن میں سے کئی ایک مسافر اسی طیارے کے ذریعے جمعرات کو اپنے گھروں کو واپس آئیں گے۔
اس طیارے کا ڈیزائن منفرد ہے اور اس کی تیاری میں کم وزن رکھنے والا میٹریل استعمال کیا گیاہے جس کی وجہ سے یہ دوران پرواز کم ایندھن استعمال کرتا ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ برسوں کی تاخیر کے بعد جس طیارے کو فضائی سفر کے لیے پیش کیا گیا ہے اس سے اخراجات میں نمایاں کمی ہوگی۔
نیپان ائیرویز کے کوپائلٹ ماسامی تسوکاموتو نے کہاہے ایسے طیارے کا انتظار کیا جاسکتا تھا۔ ان کا کہناتھا کہ یہ طیارہ ہمیں 2008ء میں ملنا تھا لیکن اس کے لیے ہمیں طویل انتظار کرنا پڑا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اب بوئنگ 787 ہمارے پاس ہے۔
اس طیارے میں مسافروں کی سہولت اور سفر کو آرام دہ بنانے کے لیے کئی چیزیں مہیا کی گئی ہیں، جن میں بڑی کھڑکیاں، سامان رکھنے کی زیادہ گنجائش اورطیارے کے اندر ہوااور درجہ حرارت پر بہترکنٹرول شامل ہیں۔
لیکن فضائی کمپنیوں کے لیے طیارے کی نمایاں خصوصیت ایندھن کی بچت ہے، جس کے ذریعے 330 نشستوں کے اس طیارے کے لیے ممکن ہوگیا ہے کہ وہ لمبے فضائی راستوں پر پرواز کرسکے جو اس سے قبل صرف بڑے سائز کے طیاروں کے لیے مختص تھے۔
اے این کے کے صدر شی نی چیرو آئتو کا کہناہے کہ یہ طیارے فضائی صنعت میں تبدیلی کا پیش خیمہ ہیں۔
ان کا کہناتھا کہ اس جدید طیارے کو امریکہ اور یورپ کے طویل راستوں پر استعمال کیا جائے گا جو اس سے پہلے ممکن نہیں تھا۔
طیارہ سازکمپنی بوئنگ کا کہناہے کہ انہیں اس طیارے کے لیے 800 سے زیادہ آرڈرمل چکے ہیں ، جو ایسے کسی بھی طیارے کے لیے اس مدت میں ملنے والے سب سے زیادہ آرڈر ہیں۔
فضائی کمپنی اے این اے کو توقع ہے کہ اسے موجودہ سال کے آخر تک مزید 11 طیارے مل جائیں گے۔