جاپان کے وزیر اعظم شنزو آبے نے منگل کو دس سالہ دفاعی پروگرام کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت جاپان آئندہ برسوں کے دوران جدید اسلحہ خریدے گا۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق نئی دفاعی خریداریوں کا مقصد چین اور روس کے بڑھتے ہوئے فوجی اثر و رسوخ کے مقابلے میں اپنے اتحادی امریکہ کو عسکری معاونت کرنا ہے۔
منصوبے کے تحت جاپان اپنی فوج کے لیے جدید اسٹیلتھ طیارے، دور مار میزائل اور دیگر سازوسامان کی خریداری پر خطیر رقم خرچ کرے گا۔
نئے دفاعی منصوبے میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کے علاوہ چین، روس اور شمالی کوریا وہ ممالک ہیں جو جاپان کی نئی دفاعی پالیسی پر سب سے زیادہ اثر انداز ہو رہے ہیں۔
جاپان کا یہ اعلان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب چین جاپان کے قریب سمندر میں گشت کرنے کے لیے مزید بحری اور ہوائی جہاز تعینات کر رہا ہے۔
خطے کے ایک اور ملک شمالی کوریا نے ابھی تک اپنے ایٹمی اور میزائل پروگرام ختم کرنے کے وعدے کو پورا نہیں کیا ہے۔
جب کہ روس نے کہا ہے کہ اس نے اس شمالی جزیرے پر نئی بیرکیں تعمیر کی ہیں جسے اس نے دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر جاپان سے چھینا تھا۔
منگل کو منظور کیے گئے پانچ سالہ خریداری منصوبے کے مطابق جاپان 42 اسٹیلتھ طیاروں کے علاوہ 45 لاک ہیڈ مارٹن کارپ F-35 اسٹیلتھ طیارے خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے جن کی قیمت تقریباً چار ارب ڈالر ہے۔
نئے طیاروں میں 18 مختصر اور عمودی لینڈنگ (STOVL) کرنے والے بی F-35 کی مختلف اقسام کے طیارے شامل ہوں گے جن کو منصوبہ ساز چین کے مشرقی سمندر کے کنارے پر واقع جاپانی جزائر پر تعینات کرنا چاہتے ہیں۔
گزشتہ ماہ ارجنٹائن میں جی-20 سربراہ اجلاس کے دوران جاپانی وزیرِ اعظم سے ملاقات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی F-35s طیارے خریدنے پر جاپان کے وزیرِ اعظم کا شکریہ ادا کیا تھا۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق جاپان اگلے پانچ برسوں میں فوجی ساز و سامان پر 224.7 ارب ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جو گزشتہ پانچ سالہ منصوبہ سے 6.4 فی صد زیادہ ہے۔
جاپان اپنے دفاع پر خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً ایک فی صد خرچ کرتا ہے لیکن اس کی معیشت کے حجم کے پیشِ نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کی بڑی فوجوں میں سے ایک فوج اس کے پاس ہے۔