کچھ عرصہ قبل ہم نے آپ کو ایک جاپانی شہری سے متعلق بتایا تھا، جو کچھ کیے بغیر ہزاروں روپے کما رہا ہے۔ شوجی موریموتو نامی جاپانی شہری اب بھی شہ سرخیوں میں ہے اور اُن کی 'ڈریم جاب' میں کئی ایسے کام شامل ہو گئے ہیں جس کے لیے اُنہیں کچھ بھی نہ کرنے کے عوض ہزاروں روپے مل رہے ہیں۔
موریموتو کو دیکھ کر نہ صرف رشک آتا ہے بلکہ شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو یہ خواہش نہ کرے کہ اسے بھی موریموتو جیسا کام مل جائے۔
آپ یقیناً یہ جاننا چاہیں گے کہ موریموتو کیا کرتے ہیں؟ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ وہ کچھ نہیں کرتے اور کچھ نہ کرنے کا معاوضہ یا تنخواہ لیتے ہیں۔ آپ انہیں کام چور یا نکھٹو نہیں کہہ سکتے کیوں کہ وہ جس بھی کام پر جاتے ہیں، اس کی پہلی اور بنیادی شرط یہ ہوتی ہے کہ وہ کچھ نہیں کریں گے۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ کچھ نہ کرنے کا وہ معقول معاوضہ لیتے ہیں۔ ان کی کچھ نہ کرنے کی فی گھنٹہ فیس10 ہزار جاپانی ین ہے، جو تقریباً 71 امریکی ڈالر (لگ بھگ 16 ہزار روپے) کے مسادی بنتی ہے۔
موریموتو کسی محکمے یا کمپنی کے ملازم نہیں ہیں بلکہ وہ اپنے باس خود ہیں۔ یعنی وہ سیلف ایمپلائیڈ ہیں اور کانٹریکٹ پر کام کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ پہلے میں ایک اشاعتی ادارے میں کام کرتا تھا، لیکن کام کرنے کو دل نہیں چاہتا تھا جس کی وجہ سے مجھے اکثر ڈانٹ پڑتی تھی اور یہ سننے کو ملتا تھا کہ تم کچھ نہیں کرتے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ میں "کچھ نہ کرنے" کو اپنا روزگار بنا لوں۔ میں نے اس نئے روزگار میں اپنی قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا اور اپنی خدمات فراہم کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔
موریموتو بتاتے ہیں کہ ان کا تجربہ کامیاب رہا۔ وہ چار سال سے "کچھ نہ کرنے" کا کام کر رہے ہیں۔ ان چار برسوں میں وہ لگ بھگ چارہزار کانٹریکٹ کر چکے ہیں اور لوگوں کو ان کا کام اتنا پسند ہے کہ ان کے ایک چوتھائی گاہک ایسے ہیں جو انہیں بار بار بلاتے ہیں۔ انہوں نے بڑے فخر سے بتایا کہ ایک گاہک تو انہیں 270 مرتبہ بلا چکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر لوگ انہیں کس کام کے لیے بلاتے ہیں۔ اس کا جواب موریموتو یہ دیتے ہیں کہ سادہ سی بات ہے کہ وہ مجھے کچھ نہ کرنے کے لیے بلاتے ہیں۔
خبررساں ایجنسی 'رائٹرز' نے ان سے پوچھا کہ لیکن پھر بھی آپ کا گاہک آپ کو کس چیز کا معاوضہ دیتا ہے۔ موریموتو نے مسکرا کر جواب دیا، کچھ وقت ساتھ گزارنے کا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک شخص نے انہیں اس لیے بلایا کہ وہ پارک میں جا کر جھولا جھولنا چاہتے تھے لیکن ان کے ساتھ کوئی جھولا جھولنے والا نہیں تھا۔ اسی طرح ایک اور صاحب نے مجھے اس لیے بلایا کہ وہ چاہتے تھے کہ جب وہ ریل گاڑی میں سوار ہوں تو کوئی انہیں ہاتھ ہلا کر رخصت کرے۔
انہوں نے ارونا چیڈا کا واقعہ سنایا جو حال ہی میں پیش آیا تھا۔ 27 سالہ چیڈا ساڑھی پہن کر ایک تقریب میں جانا چاہتی تھیں۔ لیکن انہیں یہ اندیشہ بھی تھا کہ اس روایتی لباس کو دیکھ کر تقریب میں شریک ان کے ساتھی سوالات کریں گے جس سے بچنے کے لیے انہوں نے موریموتو کو بلایا۔ وہ چیڈا کے ساتھ ایک الگ ٹیبل پر بیٹھے۔ ان دونوں کے درمیان محض چائے اور کیک پر چند جملوں کا تبادلہ ہوا۔ لیکن موریموتو کی موجودگی کے باعث کسی دوسرے شخص نے ان کی میز پر آ کر چیڈا سے بات کرنے سے اجتناب کیا۔
موریموتو نے بتایا کہ انہیں سوشل میڈیا کی مدد سے اپنا " کچھ نہ کرنے" کا کاروبار پھیلانے میں بہت مدد ملی ہے۔ ٹوئٹر پر ان کے ڈھائی لاکھ سے زیادہ فالورز ہیں اور انہیں اپنے گاہک وہیں سے ملتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس بہت آفرز آتی ہیں لیکن وہ ہر آفر قبول نہیں کرے۔ مثال کے طور پر ایک شخص نے انہیں اپنا ریفریجریٹر اٹھانے کے لیے بلایا۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں "کچھ نہ کرنے کا کام" کرتا ہوں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں جنسی نوعیت کی بھی کوئی آفر قبول نہیں کرتا۔
موریموتو اکیلے نہیں ہیں، بلکہ ان کی بیوی اور بچے بھی ہیں اور وہ ان کے تمام اخراجات " کچھ نہ کر کے" پورے کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی آمدنی تو نہیں بتائی لیکں یہ کہا کہ گھر اور بیوی بچوں کے اخراجات پورے ہو رہے ہیں انہیں " کچھ نہ کرنے" کے بجائے کسی اور جگہ جا کر " کچھ کرنے" کے متعلق سوچنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
انہوں نے بتایا کہ کرونا وبا کے پھیلنے سے پہلے انہیں روزانہ تین چار کانٹریکٹ مل جاتے تھے لیکن ایک یا دو کانٹریکٹس پر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن زندگی کی گاڑی سکون سے چل رہی ہے۔
شوجی موریموتو کی کہانی ایک ایسے معاشرے کی حقیقی تصویر پیش کرتی ہے جہاں ترقی کے تیز رفتار پہیے نے لوگوں کو اس قدر مصروف کر دیا ہے کہ کسی کے پاس دوسروں سے ملنے اور بات کرنے کے لیے وقت باقی نہیں رہا۔ ترقی نے ان کی زندگیوں میں تنہائیاں بھر دی ہیں جسے دور کرنے کے لیے وہ معاوضے پر موریموتو جیسے کردارں کی خدمات حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔
موریموتو اپنی "کچھ نہ کرنے" کی جاب سے مطمئن اور خوش ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب مجھے یہ طعنہ نہیں سننا پڑتا کہ تم " کچھ نہیں کرتے"۔ کیوں کہ میں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ "کچھ نہ کرنا" بھی ایک جاب ہے جس کا معقول معاوضہ ملتا ہے۔
اس آرٹیکل کے لیے کچھ مواد ررائٹرز سے لیا گیا ہے۔