ایک ایسے موقع پر جب ایشیائی ممالک شمالی کوریا کی جانب سے مجوزہ راکٹ لانچنگ کا انتظار کررہے ہیں،جاپانی عہدے داروں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ خلامیں راکٹ بھیجے جانے کے پانچ امکانی دنوں میں سے پہلا دن بغیر کسی واقعہ کے گذر گیاہے اور جاپان کے وزیر اعظم نے اپنی یہ اپیل ایک بار پھر دوہراہی ہے کہ شمالی کوریا زمین کے مدار میں سیٹلائٹ بھیجنے کے اپنے منصوبے ترک کردے۔
جاپان کے وزیر اعظم یوشی ہی کو مودا نے کہاہے کہ ان کا ملک دوسرے ممالک کے تعاون کے ساتھ صورت حال کا گہری نظر سے مشاہدہ کررہاہے۔انہوں نے کہا کہ جاپان، بقول ان کے ، پرسکون اور مناسب طریقے سے اپنا ردعمل ظاہر کرے گا۔
ان کا کہناہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے راکٹ لانچ کرنا ایک بڑی جارحیت کی شکل اور سیکیورٹی کے لیے خطرہ ہے جس کا اثرصرف جاپان پر ہی نہیں ہوگا بلکہ علاقے کے امن اور استحکام پر بھی سوال کھڑے ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ شمالی کوریا پر مسلسل یہ زور دیتے رہیں گے کہ وہ راکٹ کی لانچ کا اپنا ارادہ ترک کردے۔
ٹوکیو میں حکام کا کہناہے کہ وہ شمالی کوریا کی جانب سے سیٹلائٹ کی لانچنگ کو بین الالبراعظمی بیلسٹک میزائل کے تیسرے تجربے کی کوشش کے طورپر دیکھتے ہیں۔ وہ ایسے ایسی تجربات 2006ء اور 2009ء میں کرچکاہے۔
کابینہ کے پبلک ریلیشنز نائب وزیر نوری یوکی شی کاتا شمالی کوریا کی راکٹ لانچنگ کے منصوبے پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے نکتہ نظر سے شمالی کوریا کی جانب سے میزائل کی لانچنگ اس بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداوں کی خلاف ورزی ہیں اور اس اقدام سے علاقے کے امن اور ا ستحکام کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ اس لیے ہم یہ کوشش کررہے ہیں کہ شمالی کوریا راکٹ لانچنک سے باز رہنے کا فیصلہ کرے۔
جاپان کی دفاعی افواج نے جنوبی علاقے اوکی ناوا میں شمالی کوریا کے میزائل کا راستہ روکنے کے لیے کئی راکٹ شکن نظام نصب کردیے ہیں جو اسے گرانے کے لیے تیار ہیں اور یہ توقع کی جارہی ہے کہ راکٹ کے ٹکڑے جاپانی علاقے میں گر سکتے ہیں۔ شی کا تا کا کہناہے کہ اس سلسلے میں حفاظتی انتظامات کرلیے گئے ہیں۔
شمالی کوریا نے 2006ء اور 2009ء میں دور مار میزائلوں کے تجربات اپنے زیر زمین جوہری بم کے ٹیسٹوں کے بعد کیے تھے۔ یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ پیانگ یانگ اپنے سیٹلائٹ لانچ کے بعد دوبارہ جوہری تجربہ کرے گا۔