جاپانی وزیر اعظم شِنزو آبے نے امریکی صدر براک اوباما سے ایک سابق امریکی مرین کی جانب سے اوکیناوا کے امریکی فوجی اڈے کے باہر 20 برس کی جاپانی خاتوں کی ہلاکت میں ملوث ہونے کے اعتراف کا معاملہ اٹھایا، اور ’’سخت خفگی‘‘ کا اظہار کیا۔
اِزے شیما میں منعقدہ ’جی 7‘ کے دنیا بھر کے امیر ترین ممالک کے سربراہ اجلاس سے قبل، بالمشافیٰ ملاقات میں آبے نے اوباما سے بات کی۔ اخباری کانفرنس سے خطاب میں، آبے نے کہا کہ ’’میرے پاس الفاظ نہیں؛ اور یہ کہ اس تازہ واقعے پر سارا جاپان ’’انتہائی افسردہ‘‘ ہے۔
اوباما نے کہا کہ اُنھوں نے اوکیناوا کے واقعے پر ’’اپنی دلی تعزیت اور دل کی گہرائی سے اظہار ِافسوس کیا‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’امریکہ کو تشدد پر مبنی اس جرم پر افسوس ہے جو ہو سکتا ہے کہ کسی امریکی اہل کار یا امریکی کانٹریکٹر کے ہاتھوں سرزد ہوا، جسے ہم ناقابلِ معافی سمجھتے ہیں‘‘۔
دونوں سربراہان نے اس واقعے کے بارے میں بات کی، جس سے چند ہی روز قبل جاپانی حکام نے 32 برس کے سابق امریکی مرین، کنیتھ فرینکلن شِنزاتو کو گرفتار کیا، جن کے بارے میں، اُنھوں نےبتایا کہ اُنھوں نے رینا شیما بوکورو کو خنجر مارا اور گھسیٹا، اور بعد میں اُن کی لاش کو امریکی اڈے کے قریب کے جنگل میں پھینک دیا۔
اوباما نے کہا کہ ہلاکت کے بارے میں تفتیش کے سلسلے میں وہ تعاون جاری رکھیں گے، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ جاپانی قانونی نظام کے تحت انصاف کو یقینی بنایا جائے۔ ہم اس بات کے خواہاں ہیں کہ ’’اس جرم پر قرارِ واقعی سزا دی جائے‘‘، یہ ایسا ہی ہے جیسے یہ واقعہ امریکہ میں ہوا ہو۔
ہلاکت کا یہ معاملہ اوباما آبے کی گفتگو میں چھایا رہا، جس دوران دنیا کے اہم ملکوں کی جانب سے معاشی شرح نمو میں سست روی پر بھی بات ہوئی، جب کہ جمعے کو اوباما کے ہیروشیما کے دورے پر گفتگو بھی شامل تھی۔ سنہ 1945 میں ہیروشیما کے جاپانی شہر پر امریکہ نے ایٹمی بم گرایا تھا، جس میں لاکھوں جاپانی ہلاک ہوئے تھے، جس کے بعد دوسری جنگ عظیم کا فوری خاتمہ ہوا۔
اس نوجوان جاپانی خاتون کی ہلاکت سے سنہ 1945 کی یادیں تازہ ہوگئی ہیں جب اوکیناوا کے امریکی فوجی اڈے کے اہل کار مبینہ طور پر اسکول کی جاپانی لڑکیوں سے جنسی زیادتی کے واقعات میں ملوث رہے تھے، جس پر امریکی اڈوں کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔