جاپان میں زلزلے اور سونامی کے بعد جاپانیوں نے جس ہمت اور حوصلے کے ساتھ مشکلات کا سامنا کیا ہے، اسے پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھاجا رہاہے۔ اگرچہ اس قدرتی سانحے میں ہزاروں افراد کے بے گھر اور زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہوگئے تھے، لیکن اب رفتہ رفتہ وہاں زندگی اپنے معمول کی طرف لوٹ رہی ہے۔ تاہم اس تباہی کے بعد بہت سے جاپانیوں کا طرز زندگی بدل گیا ہے۔
جاپان میں ان دنوں چیری بلاسم کا سیزن ہے ۔ روایتی طور پر یہ موسم خوشی کا موسم ہوتا ہےمگر اس سال ہر طرف افسردگی سی چھائی ہو ئی ہے۔ٹوکیو کا یونو پارک عام طور پر لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوتا ہے اور خاندان اور دوست احباب درختوں کے سائے میں پکنک منا رہے ہوتے ہیں۔ مگر اس مرتبہ بہت کم پارٹیاں ہو رہی ہیں ۔
ملک کے شمال میں تباہی کے مناظر چوبیس گھنٹے جاپان کے ٹیلی ویژن پر دکھائے جارہے ہیں۔ اور ٹیمپل یونیورسٹی سے منسلک سوشیالوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کائیل کلیولینڈکا خیال ہے کہ مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا جذبہ پوری قوم میں سرایت کر چکا ہے۔
ان کا کہناتھا کہ زیادہ تر تباہی بڑے شہروں میں نہیں بلکہ دیہی علاقوں میں ہوئی ہے۔ اور اس کا زیادہ اثر بوڑھے افراد پر ہوا ہے۔ اسی لئے مشکلات سے جس طریقے سے نمٹا جا رہا ہے اس میں عمر رسیدہ نسل کا عکس جھلکتا ہے جنہیں دوسری جنگ عظیم کا تجربہ ہے ۔ اور پورے معاشرے میں یہی رجحان نظر آتا ہے۔
شمالی جاپان میں ایندھن ، خوراک اورپانی کی کمی ایک بڑا مسلہ ہے جس کی وجہ سے لاکھوں خاندان متاثر ہیں۔ ہیرو کو ناگئونا جوایک دس ماہ کے بچے کی ماں ہیں کہتی ہیں کہ وہ سب سے زیادہ فوکوشیما کے جوہری پلانٹ کی وجہ سے خوفزدہ ہیں۔ ان کا کہناتھا کہ آپ کو جوہری خطرہ نظر نہیں آتا ۔ میں بہت خوفزدہ ہوں ۔ اس لئے بھی کہ اس کے فوری اثرات نہیں ہوتے اور علامات ظاہر ہونے میں وقت لگتا ہے۔
دیگر ممالک سے آنے والوں نے جاپانیوں کے تباہ کن حالات میں ضبط نفس کو سراہا ہے۔اب بھی سونامی سے بے گھر ہونے والے تقریباً دو لاکھ افراد عارضی کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔
ٹوکیو کی گلیوں میں عام طور پر راتوں کو ہر طرف بتیاں جگمگا رہی ہوتی ہیں مگر اب بلیک آؤٹسے ایسے لگتا ہے کہ شہر کی اس فضا کا بس سایہ ساباقی رہ گیا ہے۔ معاشی طور پر خود پر قابو رکھنے کی اس گھڑی کی وجہ سے سوشی بار زاور تفریح کی جگہیں سنسان ہو کر رہ گئی ہیں۔ ان کے مالکان پریشان ہیں کہ کہیں ان کا کاروبار بالکل ہی ٹھپ نہ ہو جائے۔
مگر قسمت کا حال بتانے والے کچھ لوگ اب بھی گلیوں میں موجود ہیں۔اورجاپان کی قسمت کا فیصلہ اس بات پر منحصر ہے کہ عوام کتنی جلد غوروخوص کے اس مرحلے سے باہر نکل آتے ہیں۔