کوماکی مامیا کینسا۔۔جاپانی شہری ہیں لیکن اردو لکھنے ، پڑھنے اور بولنے میں کمال کی مہارت رکھتے ہیں۔
اردو پر دسترس رکھنے کا اندازا یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ’ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز‘ میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر اردو، خدمات انجام دے رہے ہیں۔
حال ہی میں جاپانی قونصل جنرل، توشی کازو ایسومورا کی رہائش گاہ پر ’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے سے ایک انٹرویو کے دوران ناصرف انہوں نے اردو سے اپنا رشتہ گہرا ہونے کا اعتراف کیا بلکہ ’وی او اے‘ کی ’اردو سروس‘ سے دیرینہ محبت کا اقرار بھی کیا۔
انہوں نے تبایا کہ جاپان میں بھی ہر روز ’وائس آف امریکہ‘ کی نشریات سنتے ہیں۔
اُنھوں نے بتایا کہ کئی سال قبل پاکستان میں قیام کے دوران اس ادارے سے وابستہ ایک صاحب سے اُن کی اسلام آباد میں ملاقات ہوئی تھی، جن کا نام اُن کے ذہن میں اس وقت نہیں آ رہا۔ ’’لیکن، ان سے خوب دوستی ہوگئی تھی۔ انہوں نے ہی ’وی او اے‘ سے متعلق پہلی بار بتایا تھا۔ اس دوران، مدتیں گزر گئیں۔ لیکن، وی او اے سننے کا شوق کبھی پھیکا نہیں پڑا۔‘‘
مامیا نے سندھ یونیورسٹی جام شورو سے اردو میں ’ایم فل‘ کیا ہے اور جاپانی اور اردو زبانوں کے علاوہ سندھی میں بھی روانی سے ترجمہ کرنے کا فن جانتے ہیں۔
مامیا کا کہنا ہے کہ ’’جاپانیوں کو اردو سے اتنی ہی محبت ہے جتنی غالب کو ’آموں‘ سے تھی۔ وہاں 100 سال سے بھی زیادہ عرصے سے اردو سیکھی اور سیکھائی جا رہی ہے۔ ٹوکیو یونیورسٹی میں ہر سال اردو پڑھنے والے طلبہ باقاعدہ داخلہ لیتے ہیں۔ اردو ادیبوں کے درجنوں کلام اور کتابیں جاپانی زبان میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ اور آج بھی ہو رہی ہیں۔‘‘
مامیا سنہ 2000 تک جاپانی سفارت خانہ اسلام آباد سے بھی وابستہ رہے۔ ٹوکیو کے علاوہ اوساکا یونیورسٹی میں اردو کے استاد رہے۔
غالب، میر تقی میر، منشی پریم چند، سعادت حسن منٹو، انتظار حسین، عبداللہ حسین اور مستنصر حسین تارڑ مامیا کے پسندیدہ اردو شعرا اور ادیبوں میں سے ہیں۔
وہ پاکستان سےعشق میں مبتلا ہونے کا سہرا ایک دستاویزی فلم کو دیتے ہیں۔ انہیں پاکستان کے پرانے ڈراموں اور نئے دور کی فلمیں بہت پسند ہیں ۔ ان ڈراموں اور فلموں کے بہت سے نام تو انہیں اب بھی ازبر ہیں ۔ شان، ماہرہ خان ،عتیقہ اوڈھو اور عاطف اسلم کو بہت اچھی طرح پہنچانتے اور ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کو پسند کرتے ہیں۔
ساچیو کوما کی: ’بچوں سے کچھ چھپانا ہو تو اردو بولتے ہیں‘
ساچیو کوما کی، پروفیسر مامیا کی اہلیہ ہیں اور ان دنوں بھارت میں مقیم ہیں اور بھارتی مسلمانوں پر تحقیق کررہی ہیں ۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں انہوں نے نہایت دلچسپ باتیں کیں ۔وہ مسلمانوں کے بہت سے مسلکوں کو اور ان کے عقائد کو بہت گہرائی سے جانتی ہیں۔
دوران انٹرویو انہوں نےانکشاف کیا کہ وہ ہر وقت اپنے پرس میں ’نعلین مصطفیٰ ‘کا نقش رکھتی ہیں، اس یقین کے ساتھ کہ ان کا پاسپورٹ اور دیگر اہم دستاویزات کو کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ یہ نقش انہوں نے بہت عقیدت اور محبت کے ساتھ وی او اے کے نمائندے کو بھی دکھایا۔
انٹرویو کے دوران انہوں نے بہت ہی دلچسپ انداز میں ، صاف اردو لب و لہجے اور نہایت چاؤ کے ساتھ مختلف بھارتی شہروں کی باتیں اور وہاں آباد مسلمانوں کی بہت سی باتیں اور یادیں وی او اے سے شیئر کیں۔ سہارنپور کا ذکر آیا تو ان کی آنکھوں میں ایک طرح کی چمک آگئی۔ وہ مخصوص اور روایتی جاپانی گڑیا کے سے انداز میں بہت دیر تک گفت و شنید کرتی رہیں۔
مامیا اور ان کی اہلیہ ساچیو کو صوفیوں اور درگاہوں سے عشق ہے ۔ مامیا پاکستان میں قیام کے دوران مختلف بزرگان دین کے عرس میں شوق سے شرکت کیا کرتے تھے جبکہ ساچیو بھارت میں خواجہ معین الدین چستی، نظام الدین اولیا اور دیگر بزرگان دین سے ، ان کی تعلیمات اور مسلکی عقائد سے بہت زیادہ لگاؤ رکھتی ہیں۔
انہیں صوفیانہ کلام کے ساتھ ساتھ قوالیوں سے بہت دلچسپی ہے ۔ عید میلاد النبی منانے کا خاص اہتمام کرتی ہیں ، اس کی مناسبت سے استعمال ہونے والے بیجز، جھنڈے اور سبز رنگ کی لباس کی دلدادہ ہیں۔
ساچیو پی ایچ ڈی کرچکی ہیں ، انہوں نے دنیا بھر کا سفر کیا ہے ۔ پاکستان کے مقابلے میں اکیلی لڑکی کے لئے بھارت کو زیادہ محفوظ سمجھتی ہیں ۔ ان کے بقول مذہب ، عقائد اور مسلکی نظریات پر تحقیق کے لئے بھارت محفوظ اور زیادہ آزاد ہے ، اسی لئے پاکستان کے بجائے بھارت میں رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔
مامیا سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے ۔ اپنے بچوں ، گھر اور اپنی روز مرہ کی زندگی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے دلچسپ انکشاف کیا کہ ان کے بچوں کو اردو نہیں آتی، اس لئے میاں بیوی جب بچوں کے سامنے کوئی ایسی بات کرنا چاہیں جسے بچوں سے چھپانہ مقصود ہو تو دونوں میاں بیوی اردو میں بات کرتے ہیں ۔