|
کراچی _ پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے معروف سماجی شخصیت صارم برنی کے خلاف پیسوں کے عوض امریکہ بچے اسمگل کرنے کے کیس کی تحقیقات مکمل کر کے حتمی تفتیشی رپورٹ ٹرائل کورٹ میں جمع کرا دی ہے۔
صارم برنی ٹرسٹ کے سربراہ صارم برنی کو رواں برس جون میں پاکستان سے امریکہ بچوں کی اسمگلنگ کے مبینہ الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
کیس کے حتمی تحقیقاتی چالان کے مطابق صارم برنی اور ان کی اہلیہ نے نابالغ بچوں کی تحویل غیر قانونی طور پر گود لینے کے خواہش مند والدین کو دی اور اس کے لیے بچوں کے حقیقی والدین سے رضامندی بھی حاصل نہیں کی تھی۔
رواں برس جون میں سامنے آنے والے اس کیس نے بچوں کی مبینہ اسمگلنگ سے جڑے مسائل کے ساتھ اس حقیقت کو بھی اجاگر کیا تھا کہ پاکستان میں بچوں کی اسمگلنگ سے متعلق جرائم سے نمٹنے کے لیے کوئی مخصوص قوانین موجود نہیں ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں بچوں کی اسمگلنگ کے تدارک کے لیے جامع قوانین نہ ہونے اور بعض موجودہ قوانین کے کمزور اطلاق کے باعث ایسے واقعات کی روک تھام مشکل ہو چکا ہے۔
پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کا ایکٹ 2018 سے نافذالعمل ہے اور اسی ایکٹ کے تحت بڑوں کے ساتھ بچوں کے کیسز کو بھی ڈیل کیا جاتا ہے۔ لیکن ماہرین قانون کے مطابق اس پر بھی عمل درآمد کافی کمزور ہے۔
اگرچہ پاکستان سے اسمگل ہونے والے بچوں سے متعلق کوئی سرکاری اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں۔ لیکن سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن نامی ایک این جی او کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف 2023 کے پہلے چار ماہ میں پنجاب میں بچوں کی اسمگلنگ کے 221 واقعات جب کہ سندھ میں ایسے 214 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
سرکاری ادارے نیشنل کمیشن آن دا رائٹس آف چائلڈ کی دسمبر 2023 میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اسمگل کیے جانے والے بچوں کو جبری مشقت، گھریلو ملازمت، جبری شادی، غیر قانونی طور پر گود لینے، اونٹوں کی دوڑ، انسانی اعضا کی تجارت، منشیات کی اسمگلنگ اور مسلح تنازعات میں استعمال کیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں اعتراف کیا گیا تھا کہ بچوں کی اسمگلنگ سے متعلق کوئی بھی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں۔ البتہ رپورٹ میں پیش کردہ حقائق امریکی محکمۂ خارجہ کی رپورٹ سے اخذ کیے گئے ہیں جس کے مطابق ملک میں اسمگلرز انتہائی منظم انداز سے زمینی اور سمندری راستے کے ذریعے بچوں کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔
بچوں کے حقوق کے کارکن اور سپریم کورٹ کے وکیل ضیا اعوان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ بچوں کی اسمگلنگ روکنے کے لیے جامع قانون سازی نہ ہونے اور نگرانی کے نظام کی کمی کے باعث یہ مسئلہ سنگین ہو چکا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ضیا اعوان نے کہا کہ این جی اوز اسٹریٹ چلڈرن اور یتیم بچوں کی دیکھ بھال میں حکومت کی جانب سے چھوڑے گئے خلا کو پُر کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ لیکن بچوں کی اسمگلنگ کے الزامات اور واقعات سے اُن این جی اوز کی بھی بدنامی ہوتی ہے جو اچھا کام کر رہی ہیں۔
سال 2015 سے پاکستان ایسے ممالک میں شامل تھا جو واچ لسٹ پر تھے جہاں سے بڑے پیمانے پر بچے اسمگل کیے جارہے تھے۔ تاہم سال 2022 میں پاکستان کے درجے میں بہتری آئی۔
یتیم خانوں سے بچوں کو گود لینے اور بچوں کی اسمگلنگ کے درمیان تعلق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ضیا اعوان نے کہا کہ ان مسائل کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کے لیے قانونی اصلاحات کرنا ہوں گی۔
حکومتِ پاکستان کیا کر رہی ہے؟
حکومتِ پاکستان نے تین برس قبل نیشنل کمیشن آن دی رائٹس آف چائلڈ ایکٹ 2017 کے تحت بچوں کے حقوق پر قومی کمیشن تشکیل دیا تھا۔
کمیشن کی چیئر پرسن عائشہ رضا فاروق کا کہنا ہے کہ پاکستان نے عہد کیا ہے کہ 2027 تک انٹیگریٹڈ چائلڈ پروٹیکشن سروسز کو مضبوط اور وسعت دے دی جائے گی۔ اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ بچوں کے تحفظ کے لیے قوانین کو مضبوط اور ان کے نفاذ کو ممکن بنایا جائے۔
ایک بیان میں عائشہ رضا کا کہنا تھا کہ بچوں کے خلاف جرائم بشمول ان کی اسمگلنگ کی روک تھام کے علاوہ ہر قسم کے استحصال کو روکنا چائلڈ پروٹیکشن سروسز میں شامل ہے۔
صارم برنی کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیسے ہوا؟
کراچی میں قائم امریکی قونصلیٹ کی تحریری شکایت پر پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سیل نے صارم برنی ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا تھا اور رواں برس جون میں پاکستان سے امریکہ بچوں کی اسمگلنگ کے مبینہ الزام میں صارم برنی کو گرفتار کیا گیا تھا۔
اس سے قبل اسلام آباد میں قائم امریکی سفارت خانے نے صارم برنی ٹرسٹ کی جانب سے پانچ سال کے دوران امریکہ بھیجے گئے چھ مختلف بچوں کے کیسز میں آئی آر۔ فور ویزہ جاری کیے تھے۔
یہ وہ بچے تھے جنہیں ٹرسٹ نے امریکہ بھیج دیا تھا جب کہ ایف آئی اے تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ٹرسٹ مزید بچوں کو امریکہ بھیجنے کے لیے دستاویزات مکمل کر رہا تھا۔
واضح رہے کہ آئی آر فور ویزہ اُن لاوارث بچوں کے لیے ہوتے ہیں جنہیں امریکی شہری گود لیتے ہیں۔ اور اڈاپشن کا عمل مکمل ہونے کے بعد وہ بچہ امریکی شہریت کے لیے اپلائی کرسکتا ہے۔
صارم برنی کے خلاف زیرِ سماعت کیس کے حتمی تحقیقاتی چالان کے مطابق صارم برنی اور ان کی اہلیہ نے نابالغ بچوں کی تحویل غیر قانونی طور پر گود لینے کے خواہش مند والدین کو دی تھی جس کے لیے انہوں نے فی بچہ تین ہزار امریکی ڈالر وصول کیے تھے۔
الزامات کے تحت صارم برنی ٹرسٹ نے اصل حقائق چھپا کر اور بچوں کو یتیم ظاہر کر کے غیر قانونی طریقے سے ایڈاپشن سرٹیفکیٹ حاصل کیے۔
ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق صارم برنی ٹرسٹ کی جانب سے بچوں کی گارجین شپ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی غرض سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ امریکہ منتقل ہونے والے بچے ٹرسٹ کے گیٹ پر لاوارث پائے گئے تھے جن کے والدین کو تلاش کرنے کی کوشش بھی کی گئی اور نہ ملنے پر ان کی سرپرستی اب صارم برنی ٹرسٹ کے پاس تھی۔
ایف آئی اے کے الزامات بدنیتی پر مبنی ہیں، وکیل صارم برنی
کیس میں مطلوب ملزمان کے خلاف پریونشن آف ٹریفکنگ ان پرسن ایکٹ 2018 اور تعزیراتِ پاکستان کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
تحقیقاتی افسر کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں امریکی قونصلیٹ بھی الگ سے تحقیقات کر رہا ہے اور اس معاملے کو باریک بینی سے دیکھا جارہا ہے۔
تاہم صارم برنی کے وکیل عامر وڑائچ بچوں کی امریکہ اسمگلنگ کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
عامر وڑائچ کے مطابق ایف آئی اے کی جانب سے ان کے مؤکل پر عائد الزامات من گھڑت، بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی ہیں۔ اس ضمن میں اب تک حکام کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
وکیل کا کہنا ہے کہ بچوں کی اسمگلنگ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا جب کہ ٹرسٹ کی جانب سے حقیقی والدین سے مکمل اجازت کے بعد ہی بچوں کو گود دیا جاتا ہے۔
فورم