سمندروں کی وسیع و عریض دنیا میں بے شمار آبی جاندار پائے جاتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ان سبھی جانوروں کو ابھی تک انسان دریافت بھی نہیں کر پایا ہے۔ جیلی فش کا شمار ایک ایسی آبی مخلوق میں کیا جاتا ہے جو منفرد ہونے کی وجہ سے انسانوں کی دلچسپی کا سبب بنتی ہے۔ لیکن کم لوگ ہی یہ بات جانتے ہیں کہ جیلی فش انسانوں کے لیے مہلک بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
جیلی فش سطح ِ سمندر سے لے کرسمندر کی گہرائی تک پائی جاتی ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ جیلی فش50 کروڑ سال سے ہمارے سمندروں کا حصہ ہیں۔ جیلی فش کہلائی جانے والی یہ آبی مخلوق ماہرین کے نزدیک مکمل مچھلی کی خصوصیات نہیں رکھتی۔ اسی لیے بعض اوقات انہیں صرف جیلیز بھی کہا جاتا ہے۔
امریکی ریاست میری لینڈ کے صدر مقام بالٹی مور میں قائم ماہی خانے کا شمار دنیا کے چند سب سے بڑے ماہی خانوں میں کیا جاتا ہے۔ اس کے ایک حصے میں گذشتہ تین برسوں سے یہاں نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر سے خصوصی طور پرمختلف اقسام کی جیلی فش اکٹھی کی جا رہی ہیں ۔
عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ نسانی سرگرمیوں کے ماحول پر منفی اثرات کے باعث آبی جانداروں کو بھی بڑے پیمانے پر خطرات لاحق ہوچکے ہیں ۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بالٹی مور ایکوریم میں جیلی فش شعبے کے سربراہ جیک کوور کہنا ہےکہ ماحول پر انسانی سرگرمیوں کے منفی اثرات کے نتیجے میں سمندروں میں جیلی فش کی افزائش میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہواہے۔
جیلی فش تقریبا 92 فیصد پانی کی بنی ہوتی ہے اور اس کی 85 مختلف اقسام پائی جاتی ہیں۔حیران کن بات یہ ہے کہ دماغ، سانس، حسیات اور ہاضمے کا مکمل نظام نہ ہونے کے باوجود جیلی فش دن کے چوبیس گھنٹے خوراک کھاتی ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ گذشتہ کچھ عرصے میں ماحول میں بڑھتی ہوئی آلودگی اور آبی حیات کے بے دریغ شکار کی وجہ سے دنیا بھر میں جیلی فش کی تعداد بہت تیزی سے بڑھی ہے۔ کیونکہ جیلی فش آکسیجن کے بغیر، گندگی اور آلودگی میں بآسانی پروان چڑھ سکتی ہیں۔
جیلی فش کے بڑے بڑے ٹینکوں کی صفائی اور ان کی دیکھ بھال کرنا مشکل کام ہے ، اس مقصد کے لیے ایکویریم میں جدید نظام قائم کیا گیا ہے۔ جہاں موجود ٹینکوں میں پانی کے بہاؤکو ایک خاص سطح پر رکھنے کے ساتھ ساتھ ان میں موجود جیلی فش کے لیے خوراک ڈالنے کا معقول انتظام کیا گیا ہے۔
بظاہر بے ضرر دکھائی دینے والی جیلی فش مہلک بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ جیلی فش کے لمبے لمبے دھاگے دراصل اس کا ہتھیار ہیں۔ ان لمبے لمبے دھاگوں کے اندر چھوٹے چھوٹے کانٹے ہوتے ہیں جو وہ حملے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تیراکوں کو سمندر کے ان پانیوں میں جانے سے منع کیا جاتا ہے جہاں جیلی فش زیادہ تعداد میں موجود ہوں کیونکہ جیلی جیسی بعض مچھلیوں کا زہر انسان کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے۔