فرانس میں جاری 'کان فلم فیسٹیول' میں دستاویزی فلم 'روٹی اور گلاب' کا پریمیئر ہوا جس میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد تین افغان خواتین کی روز مرہ کی زندگی کی کہانی بیان کی گئی ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی جانب سے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو پوسٹ کی گئی جس میں دستاویزی فلم کی ہدایت کار صحرا مانی،اداکار جینیفر لارنس اور پروڈیوسر جسٹن سیاروچی کا اسکریننگ میں پرجوش تالیوں سے استقبال کیا گیا۔
صحرا مانی حاضرین کو بتاتی ہیں کہ "اس فلم میں افغانستان کی عورتوں کی جانب سے ایک پیغام ہے، ایک سافٹ میسیج، پلیز ان کی آواز بنیں جوطالبان کی آمریت میں آواز سے محروم ہیں۔"
فلم بنانے کا خیال کیسے آیا؟
جب دنیا کابل کے زوال اور امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا مشاہدہ کر رہی تھی تو اداکار جینیفر لارنس اور پروڈیوسر جسٹن سیاروچی خود سےیہ سوال پوچھ رہی تھیں کہ اس ملک میں خواتین کے حقوق کی حمایت کے لیے وہ کیا کر سکتے ہیں جس کا پہلا جواب ایک افغان فلم ساز کو تلاش کرنا اور انہیں ایک پلیٹ فارم دینا تھا۔
آخرکار انہیں افغان ہدایت کار صحرا مانی مل گئیں جن کی 2019 کی دستاویزی فلم 'اے تھاؤزنڈ گرلز لائک می' جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی ایک خاتون کی انصاف کی تلاش کی کہانی ہے۔
اس فلم نے اداکار جینیفر لارنس اور پروڈیوسر جسٹن سیاروچی کو یقین دلایا کہ دستاویزی فلم کے لیے مانی ہی صحیح انتخاب ہیں۔
ہدایت کار صحرا مانی نے کان کی ویب سائٹ پر ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ یہ حقیقت دکھانا چاہتی تھیں کہ طالبان کے دور میں خواتین کی زندگی کس حد تک بدل گئی ہے چاہے اسے فلم بندکرنا کتنا ہی دشوار کیوں نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ اب خواتین پردے کے بغیر گھر سے باہر نہیں نکل سکتیں اور انہوں نے سوچا کہ ہمیں ان کی کہانیاں سنانی چاہئیں۔
مانی کی اپنی کہانی
'دی ہالی وڈ رپورٹر'کے مطابق افغان فلم ساز صحرا مانی کابل پر طالبان کے چند روز قبل یورپ میں ایک فلم فیسٹیول میں شرکت کے لیے اپنے گھر سے نکلی تھیں۔ اس سے بے خبر کہ وہ واپس نہیں آئیں گی۔
مانی جو اس وقت فرانس میں مقیم ہیں کہتی ہیں کہ "میں نے کبھی نہیں سوچا تھا، یہ آخری بار ہو گا جب میں اپنا سوٹ کیس پیک کروں گی اور اپنا دروازہ بند کروں گی، اب بھی مجھے یاد نہیں کہ میں نے اپنی کھڑکی ٹھیک سے بند کی تھی یا نہیں۔"
'دی ہالی ووڈ رپورٹر'کے مطابق یہ فلم تین افغان خواتین کی روزمرہ کی حقیقتوں پر مرکوز ہے, ایک پناہ گزین جو ملک سےفرار ہوگئیں، ایک خاتون جو اپنی سابق ڈینٹل پریکٹس سے ہٹ کر ایک سرگرم گروپ چلاتی ہیں اور ایک سابق سرکاری ملازم جو ایک گھریلو خاتون کے طور پراپنی زندگی کی نئی سچائی سے نبرد آزما ہیں۔
فلم بندی کے خطرات
ایک سال تک شوٹنگ میں جو کبھی جاری رہتی تھی اور کبھی بند کرنی پڑتی تھی، مانی نے خواتین پرہی انحصار کیا کہ وہ اپنی فلم خود بنائیں۔کبھی موبائل فونز اور کیمروں پر اور کبھی کبھار افغانستان میں موجود پیشہ ور کیمرہ مین کی مدد سے۔
یہ فلم طالبان کے قبضے کے فوراً بعد خواتین کی زندگیوں کو بیان کرتی ہے جس میں ملک چھوڑنے کی ناکام کوششیں، مظاہروں کو منظم کرنا، دھمکیاں، جسمانی تشدد اور بالآخر جیل جانا شامل ہے۔
ان تینوں خواتین کی ٹیم نے انتہائی دشوار اور نامساعد حالت میں حقائق کو ڈاکیومنٹ کیا ہے۔
مانی نے کہا کہ کیمرے کے عملے اورجن افراد کی فلم بندی کی گئی ان کی حفاظت اولین ترجیح تھی۔
ان کے بقول "طالبان کے دور میں جس طرح سے ان کی زندگیاں بدلی ہیں وہ ہمارے لیے روزمرہ کی حقیقت ہے، یہ آمریت کے تحت زندگی ہے، ایک ایسی ظالمانہ حقیقت جسے ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔"
(اس رپورٹ میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔)