واشنگٹن —
شام میں باغیوں کے ساتھ جھڑپ میں ملٹری انٹیلی جنس کے ایک اعلیٰ افسر کی ہلاکت کے بعد جنگی طیاروں نے مشرقی شہر دیر الزور پر شدید بمباری کی ہے۔
حکام کے مطابق جنرل جامع جامع جمعرات کو دیر الزور کے ضلع رشیدیہ میں باغیوں اور سرکاری فوجی دستوں کے درمیان ہونے والی لڑائی میں ہلاک ہوگئے تھے۔
'القاعدہ' سے منسلک باغیوں کی ایک تنظیم نے دعویٰ کیا ہے کہ جنرل جامع کو اس کے نشانہ بازوں نے اس وقت گولی مار کر ہلاک کیا جب وہ سرکاری فوج کےا گلے مورچوں پر موجود تھے۔
حکام کے مطابق جنرل جامع صدر بشار الاسد کے قریبی ساتھی اور شام کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے طاقت ور ترین افسران میں سے ایک تھے اور دیر الزور جیسے اہم شہر کے انٹیلی جنس امور کے نگران تھے۔
خیال رہے کہ تیل کی دولت سے مالامال شام کے صوبے دیر الزور کا ہم نام صدر مقام عراق کی سرحد کے نزدیک واقع ہے جہاں سے سنی جنگجووں کی مبینہ طور پر شام آمد کے باعث اسد حکومت اسے ایک حساس علاقہ گردانتی ہے۔
مقتول جنرل لبنان کے سابق وزیرِاعظم رفیق حریری کے 2005ء میں بیروت میں قتل کے وقت وہاں تعینات شامی افواج کے انٹیلی جنس کمانڈر تھے۔
اس قتل کا الزام شامپر عائد کیا گیا تھا جس کے بعد بین الاقوامی دباؤ کے زیرِ اثر شام کو لبنان سے اپنی فوجیں واپس بلانا پڑی تھیں۔لبنان کے سابق وزیرِاعظم کے قتل کی تحقیقات کرنےو الے اقوامِ متحدہ کے تفتیش کاروں نے جنرل جامع سے بھی اس قتل سے متعلق تفتیش کی تھی۔
حزبِ اختلاف کے کارکنوں کے مطابق دیر الزور میں باغیوں اور سرکاری فوجی دستوں کے درمیان گزشتہ ایک ہفتے سے شدید لڑائی جاری ہے جس میں جنرل جامع کی ہلاکت کے بعد گزشتہ روز سے مزید شدت آگئی ہے۔
برطانیہ میں قائم شامی حزبِ اختلاف کی حامی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے مطابق دیر الزور کے مختلف اضلاع میں باغیوں اور سرکاری فوجیوں کے درمیان رات بھر شدید جھڑپیں جاری رہیں۔
آبزرویٹری نے دعویٰ کیا ہے کہ 'القاعدہ' سے منسلک باغیوں کی تنظیم 'نصرہ فرنٹ' نے ان 10 سرکاری فوجیوں کو پھانسی دیدی ہے جسے تنظیم کے جنگجووں نے گزشتہ روز شہر کے ضلع رشیدیہ سے گرفتار کیا تھا۔
'آبزرویٹری' نے دعویٰ کیا ہے کہ باغیوں نے شہر کے نزدیک واقع ایک فوجی ہوائی اڈے کی جانب پیش قدمی کی جس کے بعد جنگی طیاروں نے باغیوں کے زیرِ قبضہ شہر کے کئی علاقوں پر شدید بمباری کی ہے۔
'آبزرویٹری' کے مطابق دیر الزور صوبے کے بیشتر علاقے باغیوں کے قبضے میں آچکے ہیں لیکن اب بھی علاقے کے کئی قبائل اسد حکومت کے وفادار ہیں۔ شہر دیر الزور کا انتظام بھی باغیوں اور حکومت کے حامی قبائلیوں کے درمیان منقسم ہے۔
حکام کے مطابق جنرل جامع جامع جمعرات کو دیر الزور کے ضلع رشیدیہ میں باغیوں اور سرکاری فوجی دستوں کے درمیان ہونے والی لڑائی میں ہلاک ہوگئے تھے۔
'القاعدہ' سے منسلک باغیوں کی ایک تنظیم نے دعویٰ کیا ہے کہ جنرل جامع کو اس کے نشانہ بازوں نے اس وقت گولی مار کر ہلاک کیا جب وہ سرکاری فوج کےا گلے مورچوں پر موجود تھے۔
حکام کے مطابق جنرل جامع صدر بشار الاسد کے قریبی ساتھی اور شام کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے طاقت ور ترین افسران میں سے ایک تھے اور دیر الزور جیسے اہم شہر کے انٹیلی جنس امور کے نگران تھے۔
خیال رہے کہ تیل کی دولت سے مالامال شام کے صوبے دیر الزور کا ہم نام صدر مقام عراق کی سرحد کے نزدیک واقع ہے جہاں سے سنی جنگجووں کی مبینہ طور پر شام آمد کے باعث اسد حکومت اسے ایک حساس علاقہ گردانتی ہے۔
مقتول جنرل لبنان کے سابق وزیرِاعظم رفیق حریری کے 2005ء میں بیروت میں قتل کے وقت وہاں تعینات شامی افواج کے انٹیلی جنس کمانڈر تھے۔
اس قتل کا الزام شامپر عائد کیا گیا تھا جس کے بعد بین الاقوامی دباؤ کے زیرِ اثر شام کو لبنان سے اپنی فوجیں واپس بلانا پڑی تھیں۔لبنان کے سابق وزیرِاعظم کے قتل کی تحقیقات کرنےو الے اقوامِ متحدہ کے تفتیش کاروں نے جنرل جامع سے بھی اس قتل سے متعلق تفتیش کی تھی۔
حزبِ اختلاف کے کارکنوں کے مطابق دیر الزور میں باغیوں اور سرکاری فوجی دستوں کے درمیان گزشتہ ایک ہفتے سے شدید لڑائی جاری ہے جس میں جنرل جامع کی ہلاکت کے بعد گزشتہ روز سے مزید شدت آگئی ہے۔
برطانیہ میں قائم شامی حزبِ اختلاف کی حامی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے مطابق دیر الزور کے مختلف اضلاع میں باغیوں اور سرکاری فوجیوں کے درمیان رات بھر شدید جھڑپیں جاری رہیں۔
آبزرویٹری نے دعویٰ کیا ہے کہ 'القاعدہ' سے منسلک باغیوں کی تنظیم 'نصرہ فرنٹ' نے ان 10 سرکاری فوجیوں کو پھانسی دیدی ہے جسے تنظیم کے جنگجووں نے گزشتہ روز شہر کے ضلع رشیدیہ سے گرفتار کیا تھا۔
'آبزرویٹری' نے دعویٰ کیا ہے کہ باغیوں نے شہر کے نزدیک واقع ایک فوجی ہوائی اڈے کی جانب پیش قدمی کی جس کے بعد جنگی طیاروں نے باغیوں کے زیرِ قبضہ شہر کے کئی علاقوں پر شدید بمباری کی ہے۔
'آبزرویٹری' کے مطابق دیر الزور صوبے کے بیشتر علاقے باغیوں کے قبضے میں آچکے ہیں لیکن اب بھی علاقے کے کئی قبائل اسد حکومت کے وفادار ہیں۔ شہر دیر الزور کا انتظام بھی باغیوں اور حکومت کے حامی قبائلیوں کے درمیان منقسم ہے۔