|
پشاور -- پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے خیبرپختونخوا کے علاقے لنڈی کوتل میں صحافی خلیل جبران کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے قاتلوں کی فی الفور گرفتاری کا حکم دیا ہے۔
منگل کی شب نامعلوم افراد نے لنڈی کوتل کے علاقے مزرینہ سلطان خیل میں خلیل جبران اور اُن کے وکیل دوست پر فائرنگ کر دی تھی۔ خلیل جبران ہلاک جب کہ اُن کے دوست اس واقعے میں زخمی ہو گئے تھے۔
صحافی خلیل جبران کو بدھ کو لنڈی کوتل میں سپردِ خاک کر دیا گیا ہے۔
لنڈی کوتل کے سینئر صحافی مہراب آفریدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ خلیل جبران آفریدی کسی دعوت کے سلسلے میں لنڈی کوتل سے ملحقہ دیہی گاؤں سلطان خیل مزرینہ گئے تھے۔ واپسی پر پہلے ہی سے تاک میں بیٹھے نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کی جس نتیجے میں وہ موقع پر ہی جان کی بازی ہار گئے۔
واقعے کے بعد ملزمان فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ مسلح افراد نے خلیل جبران کو گاڑی سے اُتار کر باقاعدہ شناخت کرنے کے بعد گولیاں ماریں۔
صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں ضلعی پولیس افسر سلیم عباس کلاچی نے بتایا کہ لنڈی کوتل تھانے کی حدود میں ہونے والے اس واقعے کے بعد ملزمان کی گرفتاری کی کوششیں جاری ہیں۔
مہران آفریدی کے بقول لگ بھگ دو سال قبل خلیل جبران کو مبینہ طور پر سیکیورٹی اداروں نے تحویل میں لے لیا تھا۔ تاہم صحافیوں کے ملک گیر احتجاج کے بعد اُنہیں رہا کر دیا گیا تھا۔
ضلعی پولیس افسر سلیم عباس کلاچی نے کہا کہ خلیل جبران کو پہلے بھی دہشت گردوں کی جانب سے دھمکیاں ملی تھیں۔ تاہم تاحال کسی گروپ نے اُن کے قتل کی ذمے داری قبول نہیں کی۔
خلیل جبران پشتو نیوز چینل 'خیبر ٹی وی' سے وابستہ تھے اور لنڈی کوتل پریس کلب کے سابق صدر بھی رہ چکے تھے۔
صحافیوں کی مذمت
خیبرپختونخوا کی مختلف صحافتی تنظیموں کے عہدے داروں نے خلیل جبران کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومت سے ملوث ملزمان کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔
خیبرپختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی اور وزیرِ اعلٰی علی امین گنڈا پور سمیت متعدد سیاسی رہنماؤں نے خلیل جبران کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
فورم