|
|
اسلام آباد -- افغاستان میں انسانی حقوق سے متعلق اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ نے طالبان حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ایسی پابندیاں ہٹائیں جو خواتین کے بنیادی حقوق سلب کرنے کا موجب بن رہی ہیں۔
اپنی تازہ ترین رپورٹ میں رچرڈ بینیٹ کا کہنا ہے کہ طالبان کے دورِ حکومت کے دوران خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق کی منظم انداز میں خلاف ورزیوں میں شدت دیکھنے میں آئی ہے جس سے افغانستان میں نوجوان نسل سمیت معاشرے کے تمام عناصر کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔
منگل کو جنیوا میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 56 ویں اجلاس میں افغانستان کے علاوہ دنیا میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر بھی غور کیا گیا۔
اجلاس میں افغانستان میں تعلیم اور کام کے شعبوں میں خواتین پر پابندیوں، صحت اور دیگر مسائل کا ذکر کیا گیا۔
اس موقع پر افغان خواتین سے بات کرتے ہوئے رچرڈ بینیٹ نے بتایا کہ اس قسم کی خلاف ورزیاں اتنی سنگین اور وسیع ہوتی جا رہی ہیں کہ یہ منظم شکل اختیار کر رہی ہیں۔ خواتین کے خلاف ایسے اقدامات جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔
طالبان حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا ہے تاہم ماضی میں وہ اس قسم کی رپورٹس کو افغانستان کے خلاف پروپیگنڈا قرار دے چکے ہیں۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جاری صنفی امتیاز اور تشدد کی کارروائیاں ایک حقیقت ہیں۔
افغانستان کے صوبہ لوگر کے سابق گورنر محمد حلیم فدائی کا کہنا ہے ایک طرف اقوامِ متحدہ اپنی رپورٹس میں خواتین اور لڑکیوں کی حالتِ زار پر تشویش کا اظہار کر رہا ہے۔ لیکن وہیں اقوامِ متحدہ طالبان حکومت کے ساتھ مفاہمت پر بھی زور دیتا ہے۔
سابق گورنر کے بقول اس وقت افغانستان کی 52 فی صد آبادی جو کہ خواتین پر مشتمل ہے کو تعلیم اور روزگار جیسے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ ان کے بقول صنفی امتیاز اور انسانی حقوق کی پامالی محض خلاف ورزیاں نہیں بلکہ حقیقی 'جرائم' ہیں۔
محمد حلیم فدائی کے مطابق اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ وہ افغانستان کے حوالے سے حقائق پر مبنی رپورٹس عالمی برادری کے ساتھ شیئر کرے تاکہ وہاں انسانی حقوق کے حوالے سے اصل حقائق معلوم ہو سکیں۔
خواتین کو مناسب نمائندگی دینے کا مطالبہ
انسانی حقوق کی سرگرم کارکن وژمہ توخی بھی اس اجلاس کے موقع پر جنیوا میں موجود تھیں۔
ان کے مطابق منگل کو ہونے والے اجلاس میں افغانستان میں انسانی حقوق، خواتین کی تعلیم اور روزگار سمیت بہت سارے مسائل پر سیر حاصل گفت گو کی گئی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے رچرڈ بینیٹ کی رپورٹ کو ایک جامع رپورٹ قرار دیا۔ ان کے بقول وہ امید کرتی ہیں کہ جو تجاویز انھوں نے اقوامِ متحدہ کو مہیا کی ہیں ان پر غور کیا جائے گا۔
وژمہ توخی کے مطابق وہ دوحہ میں شیڈول کانفرنس میں خواتین کو تمام پلیٹ فارم پر نمائندگی دینے کا مطالبہ کریں گی۔
رواں ماہ 30 جون اور یکم جولائی کو دوحہ میں اقوامِ متحدہ کی زیرِ نگرانی افغانستان کے حوالے سے تیسری کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔
طالبان حکومت کو پہلی کانفرنس میں دعوت نہیں دی گئی تھی جب کہ فروری میں ہونے والی دوحہ کانفرنس میں طالبان حکومت نے آخری لمحات میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی شرکت کی بنا پر کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔
طالبان حکومت کے مطابق ایسی کانفرنسوں میں صرف انہی لوگوں کی شرکت ہونی چاہیے جو افغانستان کی صحیح معنوں میں نمائندگی کرتے ہوں۔
تاہم اس مرتبہ طالبان حکومت نے اس کانفرنس میں شرکت کے حوالے سے مشروط آمادگی کا اظہار کیا ہے۔
'ایجنڈے اور شرکا کی فہرست میں تبدیلی کی گئی تو فیصلہ تبدیل ہو سکتا ہے'
طالبان حکومت کے وزارتِ خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے 'ایکس' پر ایک پوسٹ کے ذریعے بتایا کہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے شرکا کی فہرست اور اجلاس کے ایجنڈے پر دو ماہ کی مشاورت کے بعد طالبان حکومت نے دوحہ کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ کیا ہے۔
تاہم انھوں نے خبردار کیا کہ ایجنڈے اور شرکا کی فہرست میں کوئی تبدیلی کی گئی تو ان کا فیصلہ تبدیل ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کی علمبردار وژمہ توخی کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین سال کے دوران اگر دیکھا جائے تو سب سے زیادہ خواتین ہی متاثر رہی ہیں۔
لڑکیوں پر تعلیم اور روزگار کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ انہیں اظہارِ رائے کی آزادی بھی حاصل نہیں۔ طالبان کے ایسے اقدامات کے باعث وہ اپنی شناخت مکمل طور پر کھو چکی ہیں۔
ایسے میں جب دوحہ کانفرنس میں خواتین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے کسی کی نمائندگی نہ ہو تو ان مسائل پر کون کیسے بات کر کے اجاگر کرے گا؟
ان کے بقول یہی تو وہ بنیادی مسائل ہیں جن کے حل کے لیے وہ سب اکٹھے ہوئے ہیں اور ان کے حل کے لیے طالبان حکومت پر زور دینا نہایت ضروری ہے۔
وژمہ توخی کے بقول ان کا پُرزور مطالبہ ہے کہ دوحہ کانفرنس میں خواتین کی شرکت کو تمام پلیٹ فارمز پر یقینی بنایا جائے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کو اقتدار سنبھالے تقریبا تین سال ہو چکے ہیں۔ تاحال امریکہ سمیت کسی بھی ملک نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔
رچرڈ بینیٹ نے افغانستان میں 'ڈی فیکٹو' حکومت کو قانونی حیثیت دینے سے قبل انسانی حقوق کے حوالے سے ٹھوس اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انسانی حقوق میں بہتری نہ صرف افغانستان کے اندر بلکہ پڑوسی ممالک کے ساتھ امن کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے بھی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ میں خواتین کے ادارے کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت میں افغان خواتین اور لڑکیوں کو جس جبر کا سامنا ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ کڑی پابندیوں کے باوجود اپنے حقوق کی جدوجہد کرنے والی خواتین کو عالمی برادری کی مدد درکار ہے۔
وژمہ توخی کے مطابق جنیوا اجلاس کا پہلا دن بہتر رہا۔ افغانستان کے حوالے سے یہ اجلاس مزید اگلے چند دن جاری رہے گا۔ وہ امید کرتی ہیں کہ یہ اجلاس افغان خواتین کو درپیش مشکلات کے حل کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔
افغانستان میں اگست 2021 میں طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے لڑکیوں کی سیکنڈری تعلیم پر پابندی عائد کر دی تھی۔ رواں ماہ طالبان نے خواتین کو یونیورسٹی میں داخلہ ٹیسٹ دینے سے بھی روک دیا تھا۔
زیادہ تر خواتین سرکاری ملازمین کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور خواتین امدادی کارکنوں کو انسانی ہمدردی کے گروپوں میں شامل ہونے سے منع کیا گیا ہے۔
خواتین عوامی مقامات، جیسے پارکس، جمز اور باتھ ہاوسز وغیرہ نہیں جا سکتیں ہیں اور سڑک پر طویل سفر کے لیے مرد سرپرست کی موجودگی کی ضرورت ہوتی ہے۔
فورم