اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب میں صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور وکلا کی مرکزی تنظیم پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے 12 ستمبر کو احتجاج میں شریک ہونے کا اعلان کیا ہے۔
صحافتی تنظیموں نے حکومت کے پیش کیے جانے والے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام اور صحافیوں پر مبینہ غیر اعلانیہ پابندیوں کے خلاف 12 اور 13 ستمبر کو احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
خیال رہے کہ اس احتجاج میں اپوزیشن کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن پہلے ہی شرکت کا اعلان کر چکے ہیں۔
صحافیوں کی تشویش اور الزامات
نیشنل پریس کلب میں پاکستان میڈیا ڈویلمپنٹ اتھارٹی کے متوقع بل کے حوالے سے مشترکہ پریس کانفرنس میں پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے نمائندوں نے شرکت کی۔
اس موقع پر پی ایف یو جے کے سابق صدر افضل بٹ نے کہا کہ میڈیا ہاؤسز نے 2017 میں 10 ہزار کے قریب ورکرز کو جبری بر طرف کیا تھا۔ مہنگائی بڑھنے کے باوجود 40 فی صد تک تنخواہوں میں کٹوتی کی گئی۔ اس کے علاوہ گزشتہ چند ماہ میں صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 20 واقعات میں صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حامد میر، طلعت حسین اور امبر شمسی جیسے ٹی وی میزبانوں کو، جو لاپتا افراد کی بات کرتے تھے، نوکریوں پر فوری بحال کیا جائے۔
پی ایف یو جے کے سیکریٹری جنرل ناصر زیدی نے دعوی کیا کہ پاکستان کا ذرائع ابلاغ بدترین بحران سے گزر رہا ہے اور ان کے بقول پانچ سال سے اسے سنسر شپ کا سامنا ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت ہی نہیں کئی پاور سینٹرز ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کر رہے ہیں۔
پریس کانفرنس میں موجود سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سربراہ لطیف آفریدی نے کہا کہ عوام کو ان کے حقوق کا شعور دلانے والے ادارے آج پی ایم ڈی اے کے خلاف اکٹھے ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت دنیا میں میڈیا کی آزادی بڑھ رہی ہے یہاں اس پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے اس ضبمن وزیراطلاعات فواد چوہدری کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین خوش دل خان نے الزام لگایا کہ اس وقت حکومت کے نشانے پر وکلا اور صحافی ہیں۔
حکومت کا موقف
پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے بارے میں حکومت کا کہنا ہے کہ اس نئے ادارے کے قیام سے صحافیوں کو تنخواہوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ مسائل میں کمی ہو گی۔ جب کہ بھاری جرمانوں کے ذریعے فیک نیوز کو روکا جاسکے گا۔
حکومتی عہدیداروں کا کہنا تھا کہ اتھارٹی کے قیام میں جو کریمنل شقیں تھیں وہ ختم کر دی گئی ہیں۔
پاکستان حکومت نے حالیہ دنوں میں میڈیا کو ریگولیٹ کرنے والے تمام اداروں کو ختم کرکے میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام پر قانون سازی کا آغاز کیا ہے اور اسی حوالے سے شراکت داروں کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔
وزیر اطلاعات نے بھی صحافیوں سے بات چیت کی اور ان کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات کو سنا۔
حکومت کی مشاورتی کوششوں کے برعکس صحافی تنظیموں اور اپوزیشن جماعتوں نے میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کو یکسر مسترد کیا ہے۔