پاکستان میں نجی نشریاتی اداروں کے ایڈیٹرز اور نیوز ڈائریکٹرز کی تنظیم ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹر اور نیوز ڈائریکٹرز (ایمنڈ) نے پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے میڈیا کو جاری کردہ حالیہ ہدایات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ہدایات عوامی مفاد کی خبروں کے دائرہ کار کو محدود کرتی ہیں۔
ایمنڈ کے ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس میں پیمرا کی ہدایات سے متعلق متفقہ قرارداد بھی منظور کی گئی۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ایسی ہدایات جاری نہ کی جائیں جو آزادی رائے اور آئین کے خلاف ہوں۔
یاد رہے کہ پیمرا نے حال ہی میں نشریاتی اداروں کو مختلف عنوانات کی رپورٹنگ کرنے سے متعلق ہدایات جاری کیں تھیں۔ جو کہ صحافتی تنظیموں کے مطابق نگران ادارے کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔
حکومتی رہنما متعدد بار یہ واضح کر چکے ہیں کہ پیمرا ایک خود مختار ادارہ ہے جس کے اقدامات کا حکومت سے براہِ راست کوئی واسطہ نہیں ہے۔
نجی ٹی وی چینل ‘نیوز ون’ کے ڈائریکٹر نیوز اور ایمنڈ ایگزیکٹو کونسل کے رکن حافظ طارق محمود کہتے ہیں کہ پیمرا کی جاری کردہ حالیہ ہدایات کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نگران ادارے کو حکومت کی جانب سے میڈیا کو زیرِ اثر لانے کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حافظ طارق محمود نے کہا کہ تمام نجی نشریاتی ادارے قواعد اور اپنی ادارتی پالیسی کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ مگر پیمرا کی ہدایات، اظہارِ وجوہ کے نوٹس، جرمانے اور لائسنس کی معطلی جیسے اقدامات کا مقصد خوف کی فضا پیدا کرتے ہوئے سیلف سینسر شپ کو بڑھانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ویسے تو پیمرا کا کردار ہر دور میں متنازع رہا ہے۔ البتہ حالیہ دور میں صحافتی اداروں اور تنظیموں کو ایسی شکایات کا تواتر سے سامنا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پیمرا ایک نگران ادارے کے بجائے حکومتی پالیسی کے نفاذ کا ادارہ بن گیا ہے۔
طارق محمود نے کہا کہ پیمرا کی جاری کردہ ہدایات صارف کی حقِ معلومات کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے اور ایمنڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اس کے خلاف عدالت کا رخ کیا جائے گا۔
پاکستان میں نشریاتی ادارے بدستور مشکلات کا شکار ہیں اور حالیہ عرصے میں ٹی وی چینلز کو پیمرا کی جانب سے پابندیوں کا سامنا بھی رہا ہے۔
صحافیوں کے حقوق کی عالمی تنظیم 'رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز' کے پاکستان میں نمائندے اقبال خٹک کہتے ہیں کہ ایمنڈ کی تشویش درست ہے۔ ان کے بقول پیمرا یا کسی اور ادارے کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ میڈیا کے پیشہ ور لوگوں کو ہدایات جاری کریں اور اداروں کی ادارتی پالیسی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جائے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پیمرا کی ہدایات کے ساتھ حکومتی دباؤ بھی ہوتا ہے جس کا سامنا بڑے صحافتی ادارے تو کر سکتے ہیں۔ مگر چھوٹے اداروں پر ان اقدامات کے اثرات ضرور ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پیمرا ایک لائسنسنگ ادارے کے طور پر وجود میں آیا تھا جو کہ نگران ادارے سے بڑھ کر اب ایڈیٹر کا کردار بھی نبھانا چاہتا ہے جس کے لیے مختلف اوقات میں ہدایات جاری کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صحافتی اخلاقیات کا خیال رکھنا ایڈیٹر کا کام ہے نہ کہ پیمرا کا اور پیمرا کی ہدایات اکثر صحافتی روایات اور اصولوں کے منافی ہوتی ہیں۔
اقبال خٹک کہتے ہیں کہ پیمرا نے حال ہی میں ہدایات جاری کیں کہ قومی احتساب بیورو (نیب) سے متعلق نشریاتی اداروں پر بحث نہیں کی جا سکتی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس قسم کی کلی پابندی کیسے لگائی جاسکتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پیمرا کا چیئرمین حکومتی نمائندہ ہے اور وہ کسی صورت بھی آزاد فیصلہ نہیں کر سکتا۔ نہ ہی خود کو غیر جانب دار رکھ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس ساری صورتِ حال میں عوام کا حقِ معلومات متاثر ہوتا ہے جو کہ غیر جانب دار انداز میں عوام تک پہنچانا ذرائع ابلاغ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
پیمرا کے چیئرمین سلیم بیگ اور ترجمان سے اس خبر پر ردِ عمل حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تاہم ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا۔
پاکستان میں نجی خبر رساں نشریاتی ادارے بظاہر اپنے نشر کیے جانے والے مواد کے حوالے سے آزاد ہیں تاہم انہیں پیمرا کی ہدایات کی پاسداری کرنی ہوتی ہے۔
میڈیا کا نگران ادارہ پیمرا نشریاتی اداروں کو قواعد کی خلاف ورزی کرنے پر انضباطی کارروائی کرتے ہوئے ان کا لائسنس معطل کرنے سے لے کر منسوخ کرنے کے اختیارات رکھتا ہے۔