بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے ایک روز قبل یعنی چار اگست کو ریاست میں تعلیمی اداروں کو بند کرنے اور امتحانات ملتوی کیے جانے کے اعلانات ہوئے اور اس کے ساتھ ہی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے ہوسٹلوں کو مکینوں سے خالی کرایا جانے لگا۔
اُسی شام سری نگر اور وادی کے دوسرے بڑے بڑے شہروں اور قصبوں میں مسلح پولیس اور نیم فوجی دستوں کی تعداد کو الرٹ کر دیا گیا۔ سری نگر کے گپکار روڈ اور سونہ وار علاقے کی مکمل ناکہ بندی کی گئی۔
اس کے ساتھ ہی اِن علاقوں میں رہائش پذیر سیاسی لیڈروں کو جن میں محبوبہ مفتی، فاروق عبد اللہ، عمر عبد اللہ، سجاد لون اور محمد یوسف تاریگامی شامل ہیں، گھروں میں نظر بند کردیا گیا۔
ان کارروائیوں سے دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے بارے میں لوگوں میں پائے جانے والے خدشات کو تقویت ملی۔
اتوار کی شام کسی نامعلوم شخص کی طرف سے صحافیوں اور بعض دوسرے لوگوں کو بھیجے گئے واٹس ایپ پیغام میں کہا گیا "دفعہ 370 کو ختم کیا جارہا ہے۔ ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گیا۔ لداخ وفاق کا زیرِ انتظام علاقہ بن جائے گا۔ جموں اور کشمیر کو بھی نئی دہلی کے زیرِ انتظام علاقہ قرار دیا جارہا ہے۔ یہ اختتام ہوگا ہماری شناخت کا۔"
رات کے 10 بجے موبائل فونز پر دستیاب انٹر نیٹ سروسز کو بند کردیا گیا۔ کوئی ایک گھنٹے بعد موبائل فون سروس ہی بند ہوگئی۔ میں کئی نیوز کانفرنسز کو کور کرنے کے بعد دفتر لوٹ رہا تھا تو ایک صحافی دوست نے فون پر مشورہ دیا کہ دفتر کے بجائے گھر چلے جاؤ کیوں کہ اُس کے مطابق شہر میں کرفیو نافذ کیا جارہا ہے اور ذرائع ابلاغ کو کرفیو پاس جاری نہیں کیے جائیں گے۔
میں نے گھر پہنچتے ہی لیپ ٹاپ کھولا اور تازہ صورتِ حال کے بارے میں خبر لکھنے لگا۔ گھر کے فون پر دستیاب براڈ بینڈ سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے اس خبر کو فائل کیا اور پھر ایک ٹوئٹ کی جس میں سری نگر میں پائی جانے والی کشیدہ صورتِ حال، لوگوں میں پیدا شدہ خوف و ہراس اور نو اے ٹی ایمز پر جانے کے باوجود دو تین ہزار روپے حاصل کرنے میں ناکامی کا ذکر کیا۔
میں نے ایک اور ٹوئٹ کی جو بھارت نواز سیاسی رہنماؤں کی نظر بندی اور بے بسی کے بارے میں تھی۔ یہی لکھ رہا تھا کہ براڈ بینڈ سروس بھی بیٹھ گئی اور نصف شب کے فوراً بعد لینڈ لائن فون ہی بند ہوگئے۔
سرکاری ٹیلی ویژن 'دور درشن' اور آل انڈیا ریڈیو کے سوا تمام نیوز چینلز کی کیبل کے ذریعے نشریات بھی روک دی گئیں۔ اس سے پہلے ریاست کے جموں خطے میں بھی تعلیمی ادارے بند کرنے اور کئی علاقوں میں لوگوں کی نقل و حرکت پر بعض پابندیاں عائد کرنے کا اعلان ہوا تھا۔
جموں اور کشتواڑ کے علاقوں میں گرفتاریاں عمل میں لانے اور حساس قصبوں میں رات کا کرفیو نافذ کرنے کی اطلاعات بھی ملی تھیں۔
اگلی صبح جلدی جلدی ناشتہ کرنے کے بعد میں سری نگر کے مشتاق پریس اینکلیو (پریس کالونی) میں واقع اپنے دفتر کے لیے روانہ ہوا لیکن کوئی ایک کلو میٹر کے فاصلے پر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے قریب سڑک پر تعینات سکیورٹی اہلکاروں نے میری گاڑی کو روک کر آگے جانے کی اجازت دینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ پُرانے سری نگر شہر میں حالات ٹھیک نہیں اس لیے وہاں سے گزرنا خطرے سے خالی نہیں۔
موقع پر موجود ایک پولیس افسر نے مجھے لال چوک تک پہنچنے کے لیے فور شور روڈ بلیوارڈ کا متبادل راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ میں نے مشورے پر عمل کرتے ہوئے راستہ بدل دیا اور اپنی گاڑی کے ونڈ اسکرین سے 'پریس' اسٹیکر ہٹا دیا۔ ہم ان حالات میں ایسا کرتے ہیں اور یہ اکثر فائدے مند ثابت ہوا ہے۔"
فور شور روڈ پر ڈک پارک کے قریب موجود سکیورٹی اہلکاروں نے مجھے روکا تو میں نے اپنی شناخت ظاہر کرنے کے بجائے خود کو ایک عام شہری کے طور پر پیش کیا اور ان سے استدعا کی کہ مجھے نشاط باغ کے علاقے تک جانے کی اجازت دی جائے۔ لیکن نشاط باغ کے باہر تعینات سکیورٹی اہلکاروں نے مجھے آگے جانے سے روکا اور مجھ سے شناختی کارڈ طلب کیا۔
جونہی اسے پتہ چلا کہ میں ایک صحافی ہوں تو مجھے گاڑی موڑنے کے لئے کہا گیا۔ میری اسے سمجھانے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں۔ میں نے آگے جانے کی اجازت دینے پر اصرار کیا تو دستے میں شامل ایک افسر نے پوچھا "کیا آپ کے پاس کرفیو پاس ہے؟" جب میں نے کہا کہ حکومتی اعلان کے مطابق شہر میں دفعہ 144 کے تحت صرف حفاظتی بندش عائد کی گئی نہ کہ کرفیو، تو وہ برہم ہو گیا اور کہنے لگا "اسمارٹ بننے کی کوشش نہ کرو، تم زیادہ جانتے ہو یا ہم؟"
پیر کو بھارت کے وزیرِ داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں دفعہ 370 کو ختم کرنے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے دونوں کو وفاق کے زیرِ انتظام علاقے قرار دیے جانے سے متعلق قرارداد اور بل ایوان میں پیش کیے جنہیں بعد میں راجیہ سبھا کے ساتھ ساتھ ایوانِ زیریں (لوک سبھا) نے بھی پاس کردیا ۔ اس سے پہلے صدر رام ناتھ کووند نے اس سلسلے میں ایک صدارتی فرمان بھی جاری کیا تھا۔
کشمیری عوام حکومت کے اِن اقدامات کی وجہ سے سکتے میں ہیں۔ کئی مقامات پر بھارت اور حکمراں جماعت کے خلاف پُر تشدد مظاہرے بھی کیے گئے ہیں۔ مکمل انفارمیشن بلیک آؤٹ کی وجہ سے وادی کے مختلف علاقوں میں پائی جانے والی صحیح صورتِ حال کے بارے میں مصدقہ اطلاعات نہیں ہیں۔
عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت تقریباً 600 سیاسی قائدین اور کارکنوں، ٹریڈ یونین کے رہنماوؑں، سول سوسائٹی کے کارکنوں، وکلا، یونیورسٹی پروفیسرز اور دیگر کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن جاری ہے۔
منگل کو ہمارے گھر سے کوئی ایک سو گز کے فاصلے پر لوگوں کے ایک جمِ غفیر نے سڑک پر آکر نعرے بازی شروع کی۔ بعد میں ان کے اور سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان تصادم ہوا۔
سکیورٹی اہلکاروں پر پتھراؤ اور اس کے جواب میں اُن کی طرف سے آنسو گیس کے استعمال کا سلسلہ کئی گھنٹے تک جاری رہا۔ شام کو سکیورٹی اہلکاروں نے سنگ بازوں کو بھگانے کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کی۔
گزشتہ کئی روز سے سری نگر کے مختلف علاقوں میں پیش آنے والی اس طرح کی جھڑپوں میں جمعے کو شدت دیکھنے میں آئی۔ سری نگر کی جامع مسجد سمیت دیگر بڑی مساجد میں جمعے کی نماز نہیں پڑھنے دی گئی تاہم محلہ مساجد میں چھوٹے چھوٹے اجتماعات ہوئے جن کے فوراً بعد لوگوں نے احتجاجی جلوس نکالے۔
لداخ کے علاقے کرگل میں بھی احتجاجی ہڑتالوں کا سلسلہ جاری ہے۔ وہاں بھی گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔ تاہم خطے کے بودھ اکثریتی ضلع لیہہ میں جشن کا ماحول ہے۔
وادی میں پیش آنے والے ان واقعات کی وقائع نگاری اس لیے نہیں کر سکا کیونکہ صحافی ہونے کے باوجود مجھے بھی عام لوگوں کی طرح قیدی بنا دیا گیا ہے۔ میں گزشتہ چھ روز سے اپنے دفتر جانے کی لگا تار کوشش کر رہا ہوں لیکن ہر مرتبہ میرے گھر سے کچھ فاصلے پر تعینات سکیورٹی اہلکار محھے روک کر واپس لوٹنے پر مجبور کردیتے ہیں۔
مجھ سے وہ تمام ذرائع اور وسائل چھین لیے گئے ہیں جن کی بدولت میں اپنے قارئین اور سامعین تک پہنچ سکتا تھا۔ میں گزشتہ 35 سال سے کشمیر سے رپورٹنگ کر رہا ہوں۔ ماضی میں بھی مجھے ایک صحافی کی حیثیت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن ایسے حالات کا کبھی سامنا نہیں کیا۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں انٹر نیٹ کو بار بار معطل رکھا جاتا ہے۔ کرفیو کے نفاذ کے باوجود صحافیوں اور رپورٹروں کو کرفیو پاسز جاری کرنے سے انکار کیا جاتا ہے۔ بارہا ایسے علاقوں تک ہماری رسائی ناممکن بنا دی جاتی ہے جہاں سے خبریں آ رہی ہوتی ہیں۔
ماضی میں ہمارے کئی ساتھیوں کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑی ہیں۔ تقریباً 18 صحافیوں کو قتل کیا گیا ہے یا وہ پیشہ ورانہ فرائض انجام دیتے ہوئے اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ خود مجھ پر نصف درجن قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں جن میں سے ایک کے دوران میں نے اپنے دوست اور ساتھی کیمرہ مین مشتاق علی کو کھو دیا۔
لیکن معلومات تک رسائی کے تمام ذرائع کی بندش اور دوسرے سخت گیر اقدامات کی وجہ سے یہ پہلا موقع ہے کہ ہمیں مکمل طور پر ناکارہ بنا دیا گیا ہے۔ حالات و واقعات کی رپورٹنگ تو دور کی بات رہی۔ میں سری نگر کے ایک دوسرے علاقے میں رہائش پذیر اپنے ساتھی زبیر ڈار کے ساتھ آج پانچ دن کے بعد رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہوا ہوں۔
ساتھی زبیر ڈار پر جو گزری ہے وہ اُس صورتِ حال سے ذرا بھی مختلف نہیں جس کا مجھے سامنا کرنا پڑا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ آج بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کام کرنے والے ہر صحافی کی کہانی ہے۔