پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے حال ہی میں اپنی ایک ہفتہ وار پریس بریفنگ میں بتایا تھا کہ امریکہ کی اعلیI سفارتکار, ایلس ویلز کے حالیہ دورے کے دوران ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں بات ہوئی, جس کے بعد میڈیا میں اس حوالے سے رپورٹوں اور ٹاک شوز کے ایک سلسلے کا آ غاز ہوا۔
'وائس آف امریکہ' نے بھی اپنے پروگرام 'جہاں رنگ' میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی اور ممتاز تجزیہ کار ایاز امیر سے تازہ ترین صورتحال پر بات کی۔
اس سوال کے جواب میں کہ اب اچانک کیا پیش رفت ہوئی کہ یہ معاملہ سب کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے، فوزیہ صدیقی نے کہا ہے کہ انھیں ہمیشہ ہی یہ یقین رہا کہ حق کی ہمیشہ جیت ہوتی ہے اور امریکہ میں انکے وکلا اور عالمی سطح پر ان کے حامیوں کی مستقل کوششوں سے یقین ہے کہ جلد کوئی خوش خبری ملے گی۔
یہ معلوم کرنے پر آیا اس کا مقصد شدت پسند مظاہرین کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش تو نہیں، ایاز امیر نے کہا کہ حال میں ہونے والے مظاہروں سے اس کا تعلق نہیں جوڑا جا سکتا، کیونکہ ڈاکٹر صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرنے والا گروپ مختلف مکتبہ فکر سے ہے۔
فوزیہ صدیقی نے وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اس سلسلے میں بھرپور حمایت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انھیں اس حکومت سے توقع ہے کہ وہ سنجیدگی سے اس مسئلے کے حل کے لئے کام کرےگی۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے بدلے میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کے مطالبے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے، تجزیہ کار ایاز امیر نے کہا ہے کہ ''ایسے معاملوں میں کچھ لو اور دو کی صورت رہتی ہے''، اور ''چونکہ ڈاکٹر آفریدی کے معاملے پر امریکہ سنجیدہ ہے، اس لئے ایسے مطالبے کا امکان ضرور ہو سکتا ہے''۔ تاہم، وہ یقینی طور پر اس بارے میں کوئی علم نہیں رکھتے۔
تفصیل سننے کے لیے منسلک آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئے: