دو معروف امریکی تجزیہ کاروں نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ فوجی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے عوامل پر بھی توجہ دینا لازمی ہے۔
اُن کے مطابق، انتہا پسندی کے رجحان کو پرورش پانے سے روکنے کے لیے اگر بعض بنیادی وجوہات کا حل تلاش کرنے کی کوششیں کی جائیں تو مسئلے سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے۔
داعش کے خلاف فوجی اور سفارتی کوششوں پر بات کرتے ہوئے، امریکی تجزیہ نگار ایم جے خان اور سیم ابرار نے اردو سروس کے پروگرام جہاں رنگ میں کہا کہ اس دہشت گرد گروپ کے خلاف لڑائی کے پس منظر میں، جون کیری کا مشرق وسطیٰ کا دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ، بقول اُن کے، ’داعش کو شکست دینے کے لیے خطے کے ممالک کو مغرب کے ساتھ ایک صفحے پر ہونا ضروری ہے‘۔
سیم ابرار کا مؤقف تھا کہ ’امریکہ کو اپنی زمینی افواج بالآخر عراق اور شام بھیجنی پڑے گی‘۔ تاہم، این جے خان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو اپنی فورسز اقوام متحدہ سے منظوری کے بعد اتحاد کی شکل میں بھیجنی چاہیئے۔
برطانیہ کو درپیش دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے، وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی جانب سے ’اسٹرائیک بریگیڈ‘ کے منصوبے کو سراہتے ہوئے، تجزیہ نگاروں نے کہا کہ یہ حکمت عملی انتہاپسندی کے خلاف جنگ میں مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم، اس کے بقول، ’دہشت گردی کے دیگر عوامل پر بھی توجہ دینا اتنا ہی ضروری ہے جتنی کہ فوجی کارروائی پر‘۔
تفصیل کے لیے مندرجہ ذیل وڈیو پر کلک کیجئیے: