تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بہت سے ممالک، جِن کا شام کےتنازعے میں عمل دخل ہے، یہ خدشہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر شام میں صدر بشارالاسد کو فوری طور پر بیدخل کردیا گیا تو، بقول اُن کے، وہاں جو خلا پیدا ہوگا اسے داعش کا انتہاپسند گروپ پُر کر سکتا ہے۔
اردو سروس کے پروگرام ’جہاں رنگ‘ میں لاہور میں مقیم تجزیہ کار، ڈاکٹر فاروق حسنات اور یہاں واشنگٹن میں ایک مطالعاتی ادارے سے منسلک، عارف انصار نے بتایا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حالیہ ویانہ اجلاس میں شریک ممالک یہ چاہتے ہیں کہ پہلے داعش کا خاتمہ کیا جائے پھر شام کے اندر ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔
اُنھوں نے اِس جانب توجہ دلائی کہ مشرق وسطیٰ میں سکیورٹی، انتہاپسندی اور معاشی معاملات عام لوگوں کے لیے نہایت تشویش کا باعث ہیں۔ اس لیے کہ، اُن کے خیال میں، یہ مسائل علاقے میں انتہاپسندی کے رجحانات کو تقویت پہنچاتے ہیں۔
تجزیہ کاروں نے کہا کہ ’عرب اسپرنگ‘ کے بعد عام لوگ انتہاپسندی کے خطرات سے زیادہ آگہی رکھتے ہیں۔ تاہم، اُن کے خیال میں، داعش جیسے بااثر گروپ مایوسی کا شکار لوگوں کو مالی وسائل کے زور پر اپنا ہم خیال بنا لیتے ہیں۔
دونوں تجزیہ کاروں نے بہرحال داعش اور القاعدہ جیسے انتہاپسند گروپوں کا مقابلہ کرنے کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی پیمانے پر بنائی گئی حکمت عملی کے بارے میں خوش اُمیدی کا اظہار کیا۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے: