|
ویب ڈیسک _ نیویارک کی ایک عدالت نے نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ہش منی کیس میں مجرم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست مسترد کر دی ہے۔
مین ہیٹن عدالت کے جج ہوان مرشان کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب نو منتخب صدر ٹرمپ اپنی دوسری مدت کے لیے آئندہ ماہ حلف اٹھانے والے ہیں۔
امریکہ کی سپریم کورٹ نے حال ہی میں اپنے ایک فیصلے میں قرار دیا تھا کہ صدر کو سرکاری امور کی انجام دہی کے دوران قانونی چارہ جوئی سے محدود استثنیٰ حاصل ہے۔
ٹرمپ کے خلاف ہش منی کیس کے دوران پراسیکیوٹرز کا کہنا تھا کہ نومنتخب صدر کو گنجائش دینی چاہیے۔ لیکن اُن کا اصرار تھا کہ ٹرمپ کو مجرم قرار دینے کا فیصلہ برقرار رہنا چاہیے۔
ہش منی کیس میں درخواست مسترد ہونے پر ٹرمپ کے وکلا نے فوری طور پر اپنا کوئی مؤقف نہیں دیا ہے۔
رواں برس مئی میں نیویارک کی ایک جیوری نے ٹرمپ پر سابق پورن اسٹار اسٹورمی ڈینیئل کو رقم کی ادائیگی سے متعلق 34 الزامات میں فردِ جرم عائد کی تھی۔
ٹرمپ پر الزام تھا کہ انہوں نے 2016 کے صدارتی انتخابات کے دوران پورن اسٹار کو مبینہ جنسی تعلقات پر خاموشی اختیار کرنے کے لیے ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر دیے تھے۔
اسٹورمی ڈینئل کا دعویٰ تھا کہ ٹرمپ نے ان کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کیے تھے۔ تاہم ٹرمپ اس دعوے کی تردید کرتے رہے ہیں۔
مذکورہ کیس میں جیوری کا فیصلہ آنے کے بعد سزا سنانا باقی ہے۔
تاہم اس جیوری کے فیصلے کے ایک ماہ بعد سپریم کورٹ نے اپنے ایک حکم نامے میں قرار دیا تھا کہ سابق صدور کو عدالتی کارروائی سے محدود استثنیٰ حاصل ہے۔
اُس وقت ٹرمپ کے وکلا نے سپریم کورٹ میں دلائل دیے تھے کہ ہش منی کیس کی جیوری نے بعض نامناسب شواہد حاصل کیے جیسے ٹرمپ کا صدارتی مالیاتی گوشوارہ، وائٹ ہاؤس کے بعض مشیروں سے پوچھ گچھ اور اس وقت کی سوشل میڈیا پوسٹ جب ٹرمپ صدر تھے۔
البتہ پیر کو اپنے فیصلے میں جج مرشان نے ٹرمپ کے اُن کئی دعووں کو مسترد کر دیا کہ پراسیکیوٹرز کے شواہد آفیشل ایکٹ کے زمرے میں آتے ہیں اور انہیں صدارتی استثنیٰ حاصل ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق 41 صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں جج مرشان نے کہا کہ پراسیکیوٹرز نے اس بات پر دلائل دیے کہ ٹرمپ کا اقدام خالصتاً ذاتی حیثیت میں تھا نہ کہ بطور صدر کوئی سرکاری کام تھا۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق جج نے کہا کہ اگر استغاثہ نے غلطی سے ایسے شواہد پیش کر دیے تھے جنہیں استثنیٰ کے دعوے کے تحت چیلنج کیا جا سکتا تھا، تو ثبوت کی روشنی میں ایسی غلطی بے ضرر تھی۔
ٹرمپ کے کمیونی کیشن ڈائریکٹر اسٹیون چانگ نے پیر کو ایک بیان میں جج مرشان کے فیصلے کو سپریم کورٹ کے استثنیٰ سے متعلق فیصلے میں براہِ راست مداخلت قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس غیر قانونی مقدمے کو کبھی نہیں لایا جانا چاہیے تھا اور قانون کا تقاضا ہے کہ اس کیس کو فوری طور پر خارج کر دیا جائے۔
ٹرمپ کے خلاف اس کیس کی پیروی کرنے والے مین ہیٹن ڈسٹرکٹ اٹارنی آفس نے فوری طور پر کوئی ردِ عمل نہیں دیا ہے۔
پانچ نومبر کے صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو اپنی ذمے داریاں سنبھالیں گے۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں اداروں 'ایسوسی ایٹڈ پریس' اور 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔