رسائی کے لنکس

ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کالعدم: نواز شریف کے سیاسی مستقبل پر کیا اثر پڑے گا؟


سپریم کورٹ آف پاکستان نے 'ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ 2023" کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ نے یہ ایکٹ اختیارات سے تجاوز کر کے بنایا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ریویو آف ججمنٹ ایکٹ کے مقدمے کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اسے آئین سے متصادم قرار دیا ہے۔

اعلیٰ عدالت نے 19 جون کو 'ریویو آف ججمنٹ' ایکٹ سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے جمعے کو جاری کیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ایک روز قبل قومی اسمبلی تحلیل ہوئی ہے۔

‏چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے اپنے متفقہ فیصلے میں اس ایکٹ کو کالعدم قرار دیا ہے۔

مداخلت ناقابلِ قبول ہے، خواجہ سعد رفیق

مسلم لیگ( ن) کے رہنما اور ریلوے کے سابق وزیرِ خواجہ سعد رفیق نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو پارلیمنٹ کے اختیار میں مداخلت قرار دیا ہے۔

خواجہ سعد نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ جو بینچ فیصلہ کرے وہی ریویو سننے کا اصول انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ بینچز کی تشکیل کے لیے فردِ واحد کے اختیار نے عدل کو بارہا پامال کیا ہے۔

'ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ" کیا ہے؟

‏ریویو آف ججمنٹ ایکٹ میں آئین کی شق 184(3) کے تحت سپریم کورٹ کی جانب سے کیے گئے تمام فیصلوں پر لارجر بینچ کے سامنے اپیل کی صورت میں نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کا حق دیا گیا تھا۔

پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کردہ اس ایکٹ میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار مفادِ عامہ کے مقدمات کی نظر ثانی کے لیے بڑھایا گیا ہے اور مفاد عامہ کے مقدمات کی نظرثانی کو اپیل کے طور پر سنا جائے گا۔

اس قانون کے مطابق نظرِثانی کی سماعت کرنے والے بینچ میں ججز کی تعداد مرکزی کیس کی سماعت کرنے والے ججوں سے زیادہ ہو گی۔ اس کے علاوہ نظر ثانی میں متاثرہ فریق سپریم کورٹ کا کوئی بھی وکیل کر سکے گا۔

قانون میں کہا گیا تھا کہ ایکٹ کا اطلاق آرٹیکل 184 تین کے پہلے کے تمام مقدمات پر ہو گا اور متاثرہ فریق ایکٹ کے اطلاق کے 60 دنوں میں اپیل دائر کر سکے گا اور ایکٹ کا اطلاق ملتے جلتے قانون، ضابطے، یا عدالتی نظیر کے باوجود ہر صورت ہو گا۔

سپریم کورٹ کی طرف سے اس قانون کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد ایک بحث شروع ہو گئی ہے کہ پارلیمان کی جانب سے کی گئی قانون سازی کو عدالت کی طرف سے کالعدم قرار دینے سے پارلیمان کے اختیا رات پر حرف آ سکتا ہے۔

'پارلیمان کو قانون بنانے کی آزادی ہے'

سینئر وکیل شاہ خاور ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ پارلیمان کو قانون بنانے کی مکمل آزادی ہے، اس قانون کو مکمل طور پر منسوخ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس میں کچھ چیزیں بنیادی انسانی حقوق سے متصادم نہیں ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ خاور کا کہنا تھا کہ قانون میں ایک چیز متنازع تھی وہ یہ تھی کہ آرٹیکل 184(3) کے تحت نظرثانی اور اپیل کا حق دیا گیا تھا۔ اس پہلو کو سپریم کورٹ ختم کرسکتی تھی لیکن سائلین کے حقوق کے لیے جو شقیں تھیں انہیں ختم نہیں کرنا چاہیے تھا۔

شاہ خاور ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ قانون کا مقصد لوگوں کا تحفظ کرنا ہوتا ہے لوگوں کو نقصان پہنچانا نہیں، قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا حق ہے۔ صرف ان شقوں کو ختم کرنا چاہیے تھا جو آئین سے متصادم ہیں، باقی مفادِ عامہ سے متعلق دفعات کو ختم نہیں کرنا چاہیے تھا۔

سیاست دانوں پر اس کے اثر سے متعلق شاہ خاور کا کہنا تھا کہ حالیہ عرصے میں الیکشن ایکٹ میں جو ترمیم ہوئی ہے اس میں 62 ون ایف کے تحت ہونے والی نااہلیوں پر پانچ سال کی قدغن لگا دی گئی ہے۔ اس کی وجہ سے نواز شریف پانچ سالہ مدت پوری کر چکے ہیں اور اس قانون کی وجہ سے ان پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

'سپریم کورٹ نے آئین کی عزت بڑھائی'

لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ نواز شریف کے آنے یا نہ آنے کی بات ہو رہی ہے لیکن میرے خیال میں وہ کبھی بھی نہیں آئیں گے کیوں کہ اگر بھائی کی وزارت عظمیٰ میں اگر وہ نہیں آئے تو اب کیسے آ سکتے ہیں۔

لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اس کیس میں جو قانون سازی کی گئی وہ قانون سے بالاتر تھی۔ آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر رولز بنا سکتی ہے۔ لیکن اس میں ترمیم کی گئی اور سیکشن 2 میں کہا گیا کہ 184(3) کے مطابق اپیل کا حق حاصل ہو گا۔ اس ترمیم کا مقصد کسی کی راہ کھولنے کی کوشش تھی۔

کیا نواز شریف دوبارہ سیاست کر سکیں گے؟

الیکشن ایکٹ میں 62 ون ایف کی مدت کے تعین کے بعد کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف اب دوبارہ سیاست میں حصہ لے سکتے ہیں۔

بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ جس وقت نواز شریف کو سزا سنائی گئی تھی اس وقت 62 ون ایف کی تشریح مکمل نہیں تھی اور عدالت نے انہیں تاحیات نااہلی کی سزا سنائی تھی، ریویو آف ججمنٹس کو کالعدم قرار دینے سے نوازشریف کی امید دم توڑ گئی ہے۔

سابق وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ اس بات سے متفق ہیں کہ الیکشن ایکٹ کے تحت نواز شریف کی نااہلی کی مدت پانچ سال ہے اور وہ مکمل ہو چکی ہے لہذا نواز شریف پر اس فیصلے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

نجی ٹی وی 'جیو نیوز' سے بات کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اگر عدالتیں پارلیمان کے اختیار میں مداخلت کریں گی تو اس سے ادارے کمزور ہوں گے۔

'نواز شریف کے لیے اپیل کا حق ختم ہو گیا ہے'

سینئر وکیل شعیب شاہین کہتے ہیں کہ نواز شریف کو اس ایکٹ کی وجہ سے اپیل کا جو حق مل رہا تھا وہ اب ختم ہو چکا ہے اور نواز شریف کی نااہلی برقرار ہے کیوں کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں تاحیات نااہلی لکھا ہے اور اگر یہ ایکٹ برقرار رہتا اور اس میں اپیل دائر کی جاتی تو ہی ان کو کچھ فائدہ ہو سکتا تھا۔

اُن کے بقول نواز شریف الیکشن ایکٹ کا سہارا لینے کی کوشش کر سکتے ہیں اور اگر یہ ایکٹ بھی چیلنج ہو گیا اور عدالت نے اسے ختم کر دیا تو نواز شریف کی پاکستان میں سیاست مزید مشکلات کا شکار ہو جائے گی۔

فورم

XS
SM
MD
LG