سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بینچ نے قرار دیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی شروع ہونے کے بعد جج کے مستعفی ہونے پر بھی ختم نہیں ہو گی۔
اس فیصلے کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل حال ہی میں مستعفی ہونے والے جج جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف کارروائی جاری رکھ سکتی ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی شروع ہونے کے بعد استعفی دے دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس امین الدین کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے اس کیس کی سماعت کی جس میں وفاقی حکومت کی طرف سے عافیہ شیربانو کیس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی گئی تھی۔
بینچ میں جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس عرفان سعادت، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل تھے۔
عدالت نے حکومتی اپیل پر سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا جو بدھ کو سنا دیا گیا۔ پانچ رکنی بینچ نے چار ایک کے تناسب سے فیصلہ سنایا۔ بینچ کے رکن جسٹس حسن اظہر رضوی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔
کیس کے دوران کیا ہوا؟
کیس کی سماعت کے دوران عدالتی معاون اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا انحصار جج کے استعفے پر نہیں ہونا چاہیے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ بھارت میں کلکتہ ہائی کورٹ کی خاتون جج دوران انکوائری ریٹائر ہوئیں تو ان کے خلاف کارروائی جاری رہی تھی۔
بینچ میں شامل جسٹس عرفان سعادت نے استفسار کیا کہ اگر ایک جج کے خلاف ریفرنس آئے اور سپریم جوڈیشل کونسل نے نوٹس نہ دیا ہو تو کیا وہ ختم ہو جائے گا؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کونسل شکایت پر نوٹس کر چکی تو جج کے استعفے یا ریٹائرمنٹ سے ختم ہو جائے گی؟ دوسرا یہ کہ جج کی ریٹائرمنٹ کے بعد نئے سرے سے ریفرنس ٹیک اپ ہو سکتا ہے؟
اس پر اکرم شیخ نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ جج ریٹائر ہو جائے اور 10 سال بعد کوئی شکایت اٹھا کر اس کے خلاف کارروائی کر دی جائے۔
جسٹس عرفان نے کہا کہ عافیہ شہربانو کیس جج کے استعفے یا ریٹائرمنٹ کا جھگڑا نہیں ہے۔ اس مقدمے میں ایک جج کی ریٹائرمنٹ پر اس کے خلاف شکایت غیر مؤثر ہو جانے کا معاملہ اٹھایا گیا ہے۔ اب مدعا یہ ہے کہ جب کونسل شکایت کو غیر مؤثر قرار دے چکی ہے تو کیا کیا جائے؟
عدالتی معاون خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جج کی ریٹائرمنٹ یا استعفے کے ساتھ ہی سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی بے معنی ہو جاتی ہے۔ ضروری نہیں کہ کوئی جج اسی وجہ سے استعفیٰ دے کہ اس پر لگے الزامات سچ ہیں۔ جج اس وجہ سے بھی استعفی دے سکتا ہے کہ اسے اپنی تضحیک برداشت نہ ہو۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا جج کو اپنے استعفے کی وجوہ بیان نہیں کرنی چاہئیں؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اگر تو قانون جج کو استعفے پر وجوہات بتانے کا پابند بناتا ہے تو ان کی وضاحت لازم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 209 کا مقصد جج کو عہدے سے برطرف کرنا ہے۔ جب ایک جج عہدے پر ہے ہی نہیں تو کونسل کی کاروائی کیسے ہو سکتی ہے؟
انہوں نے کہا کہ اگر جج ریٹائرڈ یا مستعفی ہو چکا ہے تو کونسل صدر کو سفارش کیا کرے گی؟ اس پر جسٹس جمال نے استفسار کیا کہ ایک دفعہ شروع کی گئی کارروائی کیا ایک دم سے ختم کردی جائے گی؟
عدالتی معاون خواجہ حارث نے کہا کہ مثال کے طور پر 11 تاریخ کو جج استعفی دے جائے اور 12 تاریخ کو کونسل کارروائی کرے تو جج تو موجود ہی نہیں۔ تعزیرات پاکستان کے تحت سزا یافتہ شخص انتقال کر جائے تو اس کی سزا ختم ہو جاتی ہے۔
جسٹس جمال نے سوال کیا کہ اگر سپریم جوڈیشل کونسل جج کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرے تو اسے کون روک سکتا ہے؟ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس کونسل کو کارروائی روکنے کا اختیار ہے۔
انہوں نے کا کہ سپریم کورٹ نے افتخار محمد چوہدری، شوکت عزیز صدیقی کیس میں کونسل کو کارروائی سے روکا تھا۔ اگر کوئی جج جرم کرے تو عام قوانین کا نفاذ اس پر بھی ہوتا ہے۔
اس پر جسٹس جمال نے کہا کہ آپ نے اور دوسرے عدالتی معاون فیصل صدیقی نے تو ججز کو کمزور کر دیا ہے۔ اگر کوئی ایس ایچ او جج کے خلاف مقدمہ درج کرے گا تو کیا وہ جج آزادانہ فیصلہ دے سکے گا؟ خواجہ حارث نے کہا کہ ہمیشہ ایک ہی مؤقف رہا ہے کہ جو آئین و قانون میں درج ہے اس سے باہر نہیں نکلنا چاہیئے۔
عدلیہ کی آزادی کے لیے ججز کا احتساب لازم ہے، اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جج کی ملازمت کے دوران کی گئی بے ضابطگیوں پر کارروائی کرنا سپریم جوڈیشل کونسل کا ہی اختیار ہے۔ کونسل عدلیہ، عوام اور حکومت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرتی ہے۔
عثمان منصور اعوان کا کہنا تھا کہ عدلیہ بنیادی حقوق کی ضامن ہے اس لیے اسے آزاد ہونا چاہیے۔ عدلیہ کی آزادی کے لیے ججز کا احتساب لازم ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر احتساب سے گریز کیا جائے تو اس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہو گی۔ عدلیہ کی آزادی کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کو خود متحرک ہونا چاہیے۔ آرٹیکل 209 کے تحت ججز کے خلاف انکوائری کا اختیار صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ججز کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کریں تو ضروری نہیں کہ ان کی برطرفی کی سفارش کی جائے۔ اگر کوئی جج ذہنی بیماری میں مبتلا ہو تو اس کا علاج ممکن ہے۔ جن بیماریوں کا علاج ممکن ہے ان کی بنیاد پر کونسل جج کو کچھ عرصے کی رخصت دے سکتی ہے، ضروری نہیں برطرف کرے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وقت کی پابندی نہ کرنے پر جج کے خلاف شکایت ہو تو کونسل برطرفی کے بجائے تنبیہ کر سکتی ہے۔ کونسل کے سامنے شکایت آ جائے تو اس پر کوئی نہ کوئی رائے دینا لازم ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ جج ریٹائرمنٹ کے بعد چیف الیکشن کمشنر، شریعت کورٹ کے ججز یا ٹریبیونلز جیسے آئینی عہدوں پر مقرر ہوتے ہیں۔ ضروری ہے کہ جج پر لگے الزام پر کونسل اپنی رائے دے۔
عثمان منصور اعوان نے کہا کہ ججز کا احتساب ہونا چاہیے لیکن اس احتساب سے سپریم کورٹ کا وقار کم نہیں ہونا چاہیے۔
جسٹس عرفان نے کہا کہ مثال موجود ہے کہ ایک جج کے خلاف آرٹیکل 209 کی کارروائی شروع کی گئی اور ان کے استعفے پر ختم کر دی گئی۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ یہ معاملہ 2019 کا ہے تو اٹارنی جنرل آفس نے 5 سال تک کیوں کوئی ایکشن نہیں لیا۔
عدالت نے مختصر وقت کے لیے فیصلہ محفوظ کیا اور پھر چار ایک کے تناسب سے سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی شروع ہونے کے بعد جج کے مستعفی ہونے کے باوجود کیس چلانے کا فیصلہ سنا دیا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے فیصلہ سے اختلاف کیا ہے۔
’احتساب سے زیادہ انتخاب میں بہتری ضروری ہے‘
سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن کے سابق صدر اکرام چوہدری نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ریٹائرڈ ججز کے خلاف کارروائی ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے ابھی ایک کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب تک کی روایات کے مطابق ریٹائرڈ ہونے والے ججز کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی لیکن اب اس فیصلے کے بعد ججز کے خلاف کارروائی کا ایک راستہ کھلا ہے۔
اکرام چوہدری نے کہا کہ ججز کے خلاف کارروائی ہونا ایک الگ معاملہ ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ ان کے جج بننے کے وقت جانچ پڑتال کو بہتر بنانا ضروری ہے۔ اس عمل میں سپریم جوڈیشل کونسل کسی جج کی تعیناتی سے قبل اس کے کنڈکٹ، اس کے مالی معاملات سمیت سب چیزوں پر غور کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ماضی میں ججز کی تعیناتی کا معیار ان کی رشتے داریاں، دوستیاں اور مخصوص چیمبرز کے ساتھ تعلق رہا ہے۔ ان کی بے ضابطگیوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا تھا۔ اگر ججز کی تعیناتی سے قبل ہی ان کے معیار پر زور دیا جائے تو کسی جج کے خلاف کارروائی کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔
’استعفے سے فرق نہیں پڑنا چاہیے‘
سابق پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ درست فیصلہ ہے کہ جب سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی شروع ہو جائے تو استعفے سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے قانون میں یہ بات پہلے سے موجود ہے کہ اگر کسی سرکاری ملازم کے خلاف ضابطے کی کارروائی شروع ہو جائے تو مستعفی ہونے پر وہ کارروائی رکتی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کارروائی شروع ہونے سے پہلے کوئی استعفیٰ دے تو الگ بات ہے لیکن کارروائی شروع ہونے کے بعد استعفیٰ دینا درست نہیں۔ ماضی میں ایسا بھی ہوتا رہا کہ کارروائی کو کسی شخص کو مستعفی ہونے کے لیے دباؤ کے طور پر استعمال کیا گیا۔
عمران شفیق کے مطابق ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی شخص کرپشن میں ملوث ہونے پر مستعفی ہو جائے اور اپنی کرپشن سمیت سب چیزوں سے فائدہ بھی اٹھاتا رہے۔ اب اس فیصلے کے بعد ایسا ممکن نہیں ہو گا۔
سپریم کورٹ میں حالیہ عرصہ میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف کرپشن کا ریفرنس آیا جس کے بعد وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔ لیکن ان کی طرف سے عدالت میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ مستعفی ہونے کے بعد ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی۔
تاہم سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی جاری رہے گی۔
فورم