سندھ میں انسانی حقوق کے کارکن ہدایت لوہار کے قتل کی ایف آئی آر پانچ روز بعد بھی درج نہیں ہو سکی ہے۔ ہدایت لوہار کے اہلِ خانہ چار روز سے دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
مظاہرین نے جامشورو کو لاڑکانہ، شکارپور کے راستے پنجاب سے ملانے والی شاہراہ انڈس ہائی وے بلاک کر رکھی ہے۔
ہدایت لوہار کو 16 فروری کو نامعلوم حملہ آوروں نے لاڑکانہ کے قریب ضلع قمبر شہداد کوٹ کے علاقے نصیر آباد میں فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
ہدایت لوہار کی بیٹی اور انسانی حقوق کی کارکن سورٹھ لوہار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے والد کو اس اسکول کے قریب قتل کیا گیا جہاں وہ ہیڈ ماسٹر تھے۔
ان کے بقول پولیس ایس ایچ او نصیر آباد کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کر رہی ہے جسے وہ اپنے والد کے قتل کیس کا مرکزی ملزم سمجھتی ہیں۔
سورٹھ لوہار نے بتایا کہ انہوں نے دو روز تک اپنے والد کی لاش کو رکھ کر دھرنا دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس احتجاج کے دوران وہاں آنے والے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) لاڑکانہ نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ ہدایت لوہار کی تدفین کر دی گئی ہے لیکن احتجاج اور دھرنا ایف آئی آر کے اندراج تک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیر کو احتجاجی دھرنے میں ایس پی قمبر شہداد کوٹ کلیم ملک آئے تھے اور انہوں نے ایف آئی آر کے اندراج پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ لیکن جب ہم متعلقہ پولیس اسٹیشن پہنچے تو وہاں موجود اہل کاروں نے ایف آئی آر کے اندراج سے انکار کر دیا۔
سورٹھ لوہار نے کہا کہ ایف آئی آر میں وہ جن لوگوں کو نامزد کرانا چاہتی ہیں، پولیس اس کے لیے تیار نہیں ہے۔
ان سے جب اس بارے میں پوچھا گیا کہ وہ کون لوگ ہیں جنہیں آپ ایف آئی آر میں نامزد کرانا چاہتی ہیں؟ تو سورٹھ لوہار کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے والد کے قتل پر ایس ایچ او نصیر آباد ہدایت اللہ بجارانی پر شک ہے کیوں کہ بجارانی نے ان کے والد کو 2023 میں تحویل میں لے کر سیکیورٹی ایجنسیوں کے حوالے کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ایف آئی آر میں بطورِ ریفرنس ایک اور شخص اور سرگودھا کے رہائشی غلام محمد کا نام بھی شامل کرانا چاہتی ہیں۔ ان کے بقول غلام محمد کا شناختی کارڈ ہدایت لوہار سے ہونے والی ایک مزاحمت کے دوران وہاں گر کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ واقعہ 2017 میں پیش آیا تھا جب یہ شخص ہدایت لوہار کو پکڑنے آیا تھا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کو تیار نہیں اور وہ بضد ہے کہ ایف آئی آر نامعلوم حملہ آوروں کے خلاف درج کرائی جائے۔
ہدایت لوہار ایک قوم پرست سیاسی کارکن تھے اور وہ سندھ میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر آواز بھی بلند کرتے تھے۔
ان کی بیٹی سورٹھ لوہار کے مطابق ان کے والد کو 2017 اور 2023 میں سیکیورٹی اداروں نے بغیر کسی الزام یا ایف آئی آر کے تحویل میں لیا تھا۔ بعد ازاں شدید احتجاج کے بعد ان کی رہائی عمل میں آئی تھی۔
سورٹھ لوہار کا دعویٰ ہے کہ ان کے والد صوبے کے وسائل پر قبضے کے خلاف اور صوبے کے اُن حقوق کی پُر امن انداز میں بات کرتے تھے جو ملک کے آئین نے دے رکھے ہیں۔ اسی بنیاد پر انہیں دھمکیاں بھی دی جاتی رہیں۔
ہدایت لوہار کی دونوں بیٹیاں سندھ میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں بالخصوص جبری گمشدگی کے واقعات کے خلاف ہونے والے احتجاج میں پیش پیش نظر آتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بنا پر بھی ان کے والد کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے کیوں کہ ان کے والد کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں تھی۔
سورٹھ لوہار نے دعویٰ کیا کہ لاپتا افراد کے خلاف آواز اٹھانے پر ان کے سسرال کو فون کر کے کہا گیا کہ انہوں نے ایک 'دہشت گرد' کو پناہ دے رکھی ہے۔ ایسا کر کے انہیں چپ کرانے کی کوشش کی جاتی رہی۔
دوسری جانب وائس آف امریکہ نے مقدمہ درج نہ کرنے پر قمبر شہداد کوٹ کے ایس پی کلیم ملک سے پولیس کا مؤقف جاننے کے لیے متعدد بار رابطہ کیا۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ وہ میٹنگ میں مصروف ہیں اور اس خبر کی اشاعت تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
حکام کی جانب سے سورٹھ لوہار اور ان کی بہن سسی لوہار پر الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ انہیں دشمن ممالک کی ایجنسیاں غیر ملکی فنڈنگ کے ذریعے مالی مدد فراہم کرتی ہیں اور وہ اس کے ذریعے لاپتا افراد کے خلاف آواز بلند کرتی ہیں۔
تاہم سورٹھ اور سسی ان الزامات کو مسترد کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے متعلق کوئی بھی ثبوت یا کیس عدالت میں ثابت نہیں کیا جا سکا ہے۔
ادھر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے چیئرپرسن اسد بٹ نے ہدایت لوہار کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایف آئی آر درج کرانا مقتول کے خاندان کا آئینی حق ہے۔
انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کمیشن نے اس کے متعلق حقائق جاننے کے لیے ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن بھی نصیر آباد بھیجا ہے جس کی رپورٹ جلد جاری کی جائے گی۔
اسد بٹ نے دعویٰ کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ اس قتل کے پیچھے سیکیورٹی ایجنسیوں کا ہاتھ ہے کیوں کہ اس سے پہلے ایجنسیوں نے انہیں لاپتہ کیا تھا اور وہ ان کی واچ لسٹ پر معلوم ہوتے ہیں۔
انہوں ںے کہا کہ پولیس کی جانب سے ایف آئی آر نہ کاٹنے کا کوئی قانونی جواز نہیں۔ قتل کیس کی فوری ایف آئی آر درج ہونے کے بعد آزادانہ اور شفاف تحقیقات ہونی چاہیے اور اہل خانہ کو پورا حق دیا جانا چاہیے کہ وہ جسے چاہیں کیس میں نامزد کریں۔
فورم