افغان صدر حامد کرزئی نے اپنے ملک میں امن و استحکام کے سلسلے میں طالبان سے مصالحت کی کوششوں میں پاکستان کی حمایت کو ’’ناگزیر‘‘ قرار دیا ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد آمد کے بعد اُنھوں نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور اپنے ہم منصب آصف علی زرداری کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں میں دو طرفہ تعلقات، علاقائی سلامتی اور افغانستان میں قیام امن کی کوششوں پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
افغان صدر کی وزیرِ اعظم گیلانی سے ملاقات میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا بھی موجود تھے۔
وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ صدر کرزئی نے پاکستانی رہنماؤں کو اُن اقدامات سے آگاہ کیا جو افغانستان میں امن و مفاہت کے فروغ کے لیے کیے جا رہے ہیں اور جن کا مقصد ملک میں ایک عشرے سے جاری جنگ کا خاتمہ ہے۔
’’افغانوں کی قیادت میں جاری مفاہمتی عمل کی کامیابی کے لیے پاکستان کی حمایت ناگزیر ہے۔‘‘
سرکاری بیان میں بتایا گیا کہ وزیر اعظم گیلانی نے ایک بار پھر صدر کرزئی کو یقین دہانی کرائی کہ اُن کے ملک نے افغانوں کی قیادت میں کسی بھی امن عمل کی مکمل حمایت کا پختہ عزم کر رکھا ہے کیوں کہ پاکستان کا مفاد بھی ایک خوشحال اور مستحکم افغانستان ہے۔
’’فریقین (پاکستان اور افغانستان) نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مشترکہ چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے دوطرفہ تعاون مزید مضبوط بنانے کی ضرورت پر اتفاق اور دونوں ملکوں میں امن و استحکام کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کا بھی اعادہ کیا۔‘‘
وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد افغان رہنما اپنے وفد کے ہمراہ ایوان صدر پہنچے جہاں پاکستانی ہم منصب نے اُن کا استقبال کیا اور بعد میں دونوں صدرور کے درمیان ہونے والی بات چیت میں باہمی دلچسپی کے اُمور بشمول تجارت اور پاک افغان سرحد کی نگرانی کے علاوہ علاقائی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
گزشتہ سال کابل میں افغان اعلیٰ امن کونسل کے سربراہ سابق صدر برہان الدین ربانی کی خودکش حملے میں ہلاکت اور افغان عہدے داروں کی جانب سے پاکستان کے اتحادی افواج اور مقامی سکیورٹی فورسز پر مہلک حملوں میں ملوث ہونے کے الزامات کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدگی کا شکار ہو گئے تھے، لیکن حالیہ مہینوں میں ان میں بہتری آئی ہے۔
پاکستان پروفیسر ربانی پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات میں افغانستان کو مکمل معاونت کی یقین دہانی کراتا آیا ہے۔
پاکستان میں اپنے قیام کے دوران صدر کرزئی اُن مذہبی رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کریں گے جن کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ وہ افغان طالبان اور دیگر مخالف دھڑوں پر خاصا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ ان رہنماؤں میں مولانا سمیع الحق، مولانا فضل الرحمٰن اور قاضی حسین احمد شامل ہیں۔
باور کیا جاتا ہے کہ طالبان تحریک کے کئی اعلیٰ رہنما سمیع الحق افغان کے مدرسے سے ہی فارغ التحصیل ہیں۔
افغان صدر کی پاکستان آمد کا بنیادی مقصد جمعہ کو اسلام آباد میں علاقائی سلامتی پر سہ فریقی سربراہ اجلاس میں شرکت کرنا ہے جس میں حصہ لینے کے لیے ایران کے صدر محمود احمدی نژاد بھی جمعرات کی شام پاکستان پہنچ چکے ہیں۔
ایرانی صدر نے اسلام آباد پہنچنے کے بعد اپنے پاکستانی ہم منصب صدر زرداری سے ملاقات کی جس میں پاک ایران سرحد کی نگرانی کو بہتر کرنے، دوطرفہ تجارت میں اضافے اور ایران سے قدرتی کیس اور بجلی کی درآمد کے مجوزہ منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
سرکاری بیان کے مطابق ایرانی اور پاکستانی رہنماؤں نے انسداد دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف کوششوں کو تیز کرنے پر بھی اتفاق کیا۔