سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا ہے وہ مئی 2019 سے بہت کچھ بھگت رہے ہیں۔ یہ معاملہ اُن کی ذات کا نہیں بلکہ احتساب اور شفافیت کا ہے۔
پیر کو صدارتی ریفرنس پر نظرثانی اپیل کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی عیسیٰ نے خود عدالت میں دلائل دیے۔
جسٹس عیسی نے درخواست کی کہ اُن کی نظرِثانی درخواست کی سماعت کو براہ راست نشر کرنے کے لیے اُن کی درخواست پہلے سنی جائے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے گزشتہ سال صدرِ پاکستان کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کیا گیا ریفرنس کالعدم قرار دے دیا تھا۔
ریفرنس میں جسٹس عیسیٰ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔
عدالت نے یہ ریفرنس کالعدم قرار دیتے ہوئے معاملہ فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) کے سپرد کر دیا تھا۔ تاہم جسٹس عیسی نے فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی اپیل دائر کرتے ہوئے وزیرِ اعظم اور وفاقی وزرا کی جائیدادوں پر بھی سوالات اُٹھائے تھے۔
پیر کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رُکنی بینچ نے اپیل کی سماعت کی۔
جسٹس فائز عیسیٰ روسٹرم پر آئے اور کہا کہ یہ ججز، سپریم جوڈیشل کونسل اور حکومت تینوں کے کنڈکٹ کی شفافیت کا معاملہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ بینچ کا کوئی اور رکن ریٹائر ہو جائے اور یہ کیس مکمل نہ ہو، اپنے وکیل منیر اے ملک کے حوالے سے جسٹس فائز نے بتایا کہ وہ علالت کی وجہ سے نہیں آئے۔
فائز عیسیٰ نے کہا کہ سربراہ مملکت نے خفیہ ریفرنس چیف جسٹس کو بھیجا جو پبلک ہو گیا لیکن اس پر حکومت نے ایک لفظ نہیں بولا کہ ریفرنس کیسے لیک ہوا۔ ریفرنس ملک کے اعلیٰ عہدیداران کے پاس تھا تو پبلک کیسے ہوا؟
انہوں نے کہا کہ اس ریفرنس کے بعد میری اہلیہ نے بہت کچھ سنا جو ان کے ساتھ زیادتی ہے۔ ہمیں عوامی سطح پر الزام تراشیوں کا سامنا ہے۔ جاننا چاہتا ہوں حکومت میری درخواست کی مخالفت کرتی ہے یا نہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے سامنے ایسا کوئی مواد نہیں کہ آپ کی تضحیک کی گئی۔ عدالت نے تمام حالات کو مدِنظر رکھ کر درخواست پر فیصلہ کرنا ہے۔
جسٹس فائز نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے آج عدالت آنا بھی گوارا نہیں کیا۔ اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو ابھی تک نوٹس ہی جاری نہیں کیا گیا جس پر جسٹس فائز نے کہا کہ نوٹس ہو یا نہ ہو اٹارنی جنرل کو آنا چاہیے تھا۔
کمرہ عدالت میں موجود ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا کرونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے میں ذاتی حیثیت میں سماعت دیکھنے آیا ہوں۔ وزیرِ قانون فروغ نسیم 12 مارچ تک ملک سے باہر ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ سماعت کل ہو تو کیا ایڈیشنل اٹارنی جنرل دلائل دے سکتے ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا کہ عدالت جو مناسب حکم جاری کرے میں تیار ہوں۔
اس موقع پر جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں نے ایک متفرق درخواست دائر کی ہے کہ اس مقدمے کی سماعت کی لائیو کوریج کی جائے۔ نظرِثانی درخواست سے پہلے اس درخواست پر سماعت کی جائے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سماعت براہ راست نشر کرنے کی درخواست اپنی نوعیت کی پہلی درخواست ہے۔ سماعت براہ راست نشر کرنے کا تعلق شفافیت سے ہے۔ اس کے لیے وسائل کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔ بعض ممالک میں لائیو کوریج ہوتی ہے، معلوم نہیں ہمارا سسٹم عدالتی کارروائی پر براہ راست کوریج کر سکتا ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ براہ راست کوریج پر فی الحال نوٹس نہیں کر رہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے وکیل کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ رولز کے مطابق آپ کے وکیل کا پیش ہونا لازمی ہے۔ منیر اے ملک تحریری طور پر اپنی بیماری سے آگاہ کریں۔ منیر اے ملک لکھ کر دیں کہ وہ نظرِثانی درخواستوں پر دلائل نہیں دیں گے۔ جسٹس فائز نے کہا کہ منیر اے ملک نے ٹکٹ بھی بک کرائی تھی۔ لیکن وہ خرابی صحت کی وجہ سے نہیں آ سکے۔
عدالت نے کیس کی سماعت منگل تک کے لیے ملتوی کر دی۔