رسائی کے لنکس

جسٹس فائز عیسیٰ: 'عمران خان کو ذاتی طور پر نہیں جانتا تو جانب دار کیسے ہو سکتا ہوں'؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان میں اراکین اسمبلی ترقیاتی فنڈز کیس میں چیف جسٹس گلزار احمد کی طرف سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو وزیراعظم کے خلاف کوئی بھی کیس سننے سے روکنے کے فیصلے کے بعد جسٹس فائز عیسی کا اختلافی نوٹ سامنے آیا ہے۔

اختلافی نوٹ میں جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ "بینچ میں شامل تمام ججز کے دستخط ہونے تک حکم نامہ قانونی نہیں ہو سکتا۔ وزیرِاعظم کے خلاف مقدمہ نہ سننے کا مطلب ہے کہ جج صرف پرائیویٹ کیسز سن سکتا ہے۔ مقدمے کے فیصلے سے چیف جسٹس کی ساکھ پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کسی جج کو کوئی مقدمہ سننے سے نہیں روک سکتی۔"

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے یہ اختلافی نوٹ 28 صفحات پر مشتمل ہے۔ جس میں جسٹس فائز عیسیٰ نے اس کیس پر اپنا اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے کہا ہے کہ تمام ججز کے دستخط نہ ہونے پر مقدمہ ختم نہیں ہوا بلکہ زیرالتوا ہے۔

اختلافی نوٹ میں جسٹس عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سینیٹ الیکشن سے قبل وزیرِاعظم نے اراکین کو ترقیاتی فنڈز دینے کا کہا۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ووٹوں کی خرید و فروخت کا کہہ رہی ہیں۔ اٹارنی جنرل نے تحقیقات کے بجائے جج کو شکایت کنندہ بنانے کی کوشش کی۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف دائر ریفرنس کے معاملے پر کہا کہ انہوں نے وزیرِاعظم نہیں صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔ دیگر 13 افراد کے ساتھ وزیرِاعظم کو بھی فریق بنایا گیا تھا۔ اگر وزیرِاعظم کو فریق بنانا وجہ تھی تو فریق بینچ کے تین ججز بھی تھے۔ سپریم جوٖڈیشل کونسل کا حصہ تین ججز بھی بینچ میں شامل تھے۔

جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ مقدمے کے فیصلے سے چیف جسٹس کی ساکھ پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

ان کے مطابق اس کیس میں الیکشن کمیشن نے بھی ترقیاتی فنڈز کے اعلان کا نوٹس نہیں لیا۔

انہوں نے کہا کہ وزیرِاعظم کے صرف آئینی اقدامات کو قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے، تمام ججز کے دستخط نہ ہونے پر مقدمہ ختم نہیں ہوا بلکہ زیرِ التوا ہے۔

فیصلے کے آخر میں جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں بہت دکھی دل کے ساتھ یہ آرڈر لکھ رہا ہوں۔ کسی کو اگر میرے الفاظ سے دکھ پہنچے تو میں اس پر معذرت خواہ ہوں کیونکہ میرا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ہے۔ دعا ہے عدلیہ آئین کی ہر خلاف ورزی اور اختیارات کے غلط استعمال کے خلاف کھڑی ہو۔

سپریم کورٹ بار کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنا اختلافی نوٹ بالکل درست لکھا ہے کیونکہ سپریم کورٹ ایک آئینی ادارہ ہے۔ ان کے بقول اگر چیف جسٹس کی بات کو مان لیا جائے تو پھر اس بات کا جواب کیسے دیا جاسکتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ ان ہی ججز نے دیا جن کو جنرل مشرف نے ہٹایا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ججز جب بھی کسی بینچ سے الگ ہوتے ہیں تو وہ اپنی مرضی اور ضمیر کے مطابق الگ ہوتے ہیں، سپریم کورٹ کے کسی جج کو کسی شخصیت سے متعلق کیس سننے سے روکا نہیں جاسکتا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل اظہرصدیق ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ اس کیس میں عدالت کا فیصلہ قانون کے مطابق ہے۔ جس میں اگر عدالت سمجھے کہ کوئی جج جانب داری کا مظاہرہ کررہا ہے تو وہ اسے روک سکتے ہیں۔

اظہر صدیق ایڈوکیٹ نے کہا کہ اس فیصلے کے ذریعے عدالتی روایات توڑی گئی ہیں۔ یہ اختلافی نوٹ سپریم کورٹ کے فیصلے کو ختم کرنے کی کوشش ہے اور میرے خیال میں کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ توہین عدالت کے زمرے میں بھی آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق اختلافی نوٹ سے فیصلہ ختم نہیں کیا جا سکتا۔

کیس کا پس منظر

رواں ماہ 12 فروری کو سپریم کورٹ نے وزیرِاعظم عمران خان کی جانب سے اراکینِ اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز جاری کرنے سے متعلق کیس کے تفصیلی فیصلے میں کہا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، وزیرِاعظم سے متعلق کیسز کی سماعت نہ کریں کیونکہ انہوں نے وزیرِ اعظم کے خلاف کیس کر رکھا ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی جانب سے تحریر کردہ پانچ صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا وزیرِاعظم سے متعلق کیس کی سماعت کرنا درست نہیں۔ غیر جانب داری کے اصول کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وزیرِاعظم سے متعلق کوئی بھی مقدمہ نہ سنیں۔

ترقیاتی فنڈ کیس کیا تھا؟

سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک کیس کی سماعت کے دوران وزیرِاعظم عمران خان کی طرف سے سینیٹ انتخابات سے قبل اراکینِ اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے سے متعلق ایک بیان سامنے آیا تھا۔ جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نوٹس لیتے ہوئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوایا تھا۔

چیف جسٹس نے بعد میں اس معاملے پر پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔ جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل تھے۔

اس پانچ رکنی بینچ کے سامنے اٹارنی جنرل خالد جاوید نے وزیرِاعظم کے سیکرٹری کی طرف سے ایک خط پیش کیا۔ جس میں کسی بھی قسم کے ترقیاتی فنڈ دینے کی تردید کی گئی تھی۔ تاہم جسٹس فائز عیسیٰ کے اعتراض پر فیصلے کے روز وزیرِاعظم اور سیکریٹری خزانہ کے دستخط سے ایک خط جمع کرایا گیا۔ جس میں وزیراعظم کی طرف سے ایسے کسی بھی فنڈ کے جاری ہونے کی تردید کی گئی اور کہا گیا کہ اخبار میں شائع شدہ خبر غلط ہے۔

چیف جسٹس، جسٹس گلزار احمد نے عمران خان کے دستخط شدہ جواب پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے معاملہ نمٹا دیا تھا۔

چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھا کہ وفاق سمیت تمام حکومتیں ترقیاتی فنڈز کے اجرا کی نفی کر چکی ہیں، اس لیے سپریم کورٹ نے مقدمہ نمٹا دیا۔

XS
SM
MD
LG