سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس جاوید اقبال کے والدین کے قتل کی ابتدائی تحقیقات میں سامنے آنے والے حقائق نے پولیس کے اس بیان پر سوالیہ نشان لگادیا ہے کہ انہیں ڈکیتی میں مزاحمت پر قتل کیا گیا۔
جسٹس جاوید کے والدین 92 سالہ ملک عبدالحمید اور ان کی 85 سالہ اہلیہ زرینہ عبدالحمید کو گزشتہ شب لاہور میں ان کی رہائش گاہ واقع کیولری گرائونڈ میں نامعلوم افراد نے قتل کردیا تھا۔ سی سی پی او لاہور اور وقوعہ پر پہنچنے والے دیگر پولیس افسران نے جائے واقعہ کےمعائنے کے بعد میڈیا کو بتایا تھا کہ شواہد کی بنیاد پر یہ لگتا ہے کہ نامعلوم ملزمان نے ڈکیتی میں مزاحمت کرنے پر ملک عبدالحمید اورا ن کی اہلیہ کوقتل کیا۔
حکام کا کہنا تھا کہ ملزمان نے دونوں میاں بیوی کے منہ پر تکیہ رکھ کر ان کا سانس بند کی جس کے باعث وہ دم گھٹنے سے ہلاک ہوگئے۔
تاہم بدھ کے روز پنجاب پولیس کے سربراہ کی جانب سے دیے گئے بیان اور مقتولین کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ نے تحقیقاتی اداروں کو جرم سے متعلق قائم کی گئی پہلی رائے کے برخلاف دیگر ممکنہ آپشنز کو بھی شاملِ تفتیش کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
آئی جی پنجاب جاوید اقبال نے بدھ کے روز مقتولین کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ جسٹس جاوید اقبال کے والدین کا قتل بظاہر ڈکیتی کی واردات میں مزاحمت کا نتیجہ لگتا ہے تاہم اہم بات یہ ہے کہ گھر میں داخل ہونے والے ملزمان نے کسی سامان کو نہیں چھیڑا۔
اس سے قبل منگل کی شب ہونے والے قتل کے کچھ دیر بعد پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ میاں شہباز شریف کے ہمراہ جائے واقعہ کا دورہ کرنے والے پنجاب کے صوبائی قانون رانا ثناء اللہ سے منسوب یہ بیان میڈیا پر آیا تھا کہ جسٹس جاوید اقبال کے والدین کی رہائش گاہ پر ان کا سامان بکھرا پڑا تھا۔
ادھر مقتولین کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملزمان نے جسٹس جاوید اقبال کے والدین کوقتل کرنے سے قبل انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔
پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق مقتولین کے جسم پر تشدد کے واضح نشانات موجود تھے۔ جسٹس جاوید اقبال کے والد کے ہونٹ پر زخم کا نشان تھا جبکہ ان کی والدہ کی کئی پسلیاں ٹوٹی ہونے کے علاوہ ان کے سینے پر بھی زخم موجود تھے۔
ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقتولین کی موت شام چار سے پانچ بجے کے درمیان ہوئی۔ واضح رہے کہ جسٹس جاوید کے والدین اپنی رہائش گاہ پر اکیلے رہتے تھے اور ان کی موت کی اطلاع پیر کی شب 9 بجے اس وقت ملی جب گھر آنے والے کچھ مہمانوں نے لاشیں دریافت کیں۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم کی حتمی رپورٹ آئندہ دس سے پندرہ روز کے دوران کیمیکل ایگزامنر کی جانب سے جاری کی جائے گی۔ بدھ کی دوپہر وفاقی حکومت کی فرینزک سائنس لیبارٹری سے وابستہ پانچ ماہرین کی ایک خصوصی ٹیم نے بھی جسٹس جاوید کے والدین کے گھر کا دورہ کیا اور جائے وقوعہ اور گھر کے مختلف مقامات سے نمونے حاصل کیے۔ حکام کے مطابق نمونوں کے لیبارٹری ٹیسٹ کے بعد سامنے آنے والی رپورٹ سے بھی تفتیش میں مدد ملنے کا امکان ہے۔
پنجاب پولیس کے سربراہ کے مطابق تحقیقاتی اداروں کو جائے وقوعہ سے انگلیوں کے نشانات بھی ملے ہیں جنہیں قتل کی تفتیش کے سلسلے میں حراست میں لیے گئے افراد کے فنگر پرنٹس سے ملایا جائے گا۔ میڈیا سے گفتگو میں آئی جی جاوید اقبال نے بتایا کہ جائے واقعہ سے کئی دیگر اہم شواہد بھی اکٹھے کرلیے گئے ہیں جن کے ذریعے ملزمان تک پہنچنے میں کامیابی کا امکان ہے۔
واضح رہے کہ پنجاب پولیس کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیرِ داخلہ رحمن ملک کی ہدایت پر قائم کی گئی آئی ایس آئی، انٹیلی جنس بیورو اور ایف آئی اے کےماہرین پر مشتمل ایک خصوصی ٹیم بھی قتل کی تحقیقات کر رہی ہے۔
دریں اثناء ملک عبدالحمید اور ان کی اہلیہ کے قتل کا مقدمہ ان کے بیٹے اور جسٹس جاوید اقبال کے بھائی کرنل سعید کی مدعیت میں لاہور کے تھانہ فیکٹری ایریا میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کرلیا گیا ہے۔
قتل کے محرکات
پنجاب کے وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ جسٹس جاوید اقبال کے والدین کے قتل سے لاپتہ افراد کے کیس کے ممکنہ تعلق کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
واضح رہے کہ جسٹس جاوید اقبال چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج ہیں اور اس وقت ان کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کا ایک بینچ لاپتہ افراد کے کیس سمیت کئی دیگر اہم مقدمات کی سماعت کررہا ہے۔
اپنے والدین کے قتل سے ایک روز قبل لاپتہ افراد کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس جاوید اقبال نے ریمارکس دیتے ہوئے 2011 کو لاپتہ افراد کی بازیابی کا سال قرار دیا تھا۔ کیس کی سماعت کے دوران ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کو غیر قانونی حراست میں رکھنے میں ملوث حکام کے خلاف بھی کاروائی کی جائے گی اور انہیں جیل جانا پڑے گا۔
مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس جاوید اقبال نے لاپتہ افراد کی رہائی کیلیے قائم کردہ کمیشن کی جانب سے پیش کردہ تجاویز کا تذکرہ کرتے ہوئے حکومت سے کہا تھا کہ ملک کی خفیہ ایجنسیوں کو مرکزی کنٹرول میں لانے کیلیے قانون سازی کی جانی چاہیے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر عاصمہ جہانگیر نے بھی بدھ کے روز سپریم کورٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس جاوید اقبال کے والدین کے قتل سے متعلق مختلف آراء گردش کررہی ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بار قتل کی ہر پہلو سے تحقیقات کیے جانے کا مطالبہ کرتی ہے اور حکومتی اداروں کی جانب سے اس ضمن میں کی جانے والی پیش رفت پر کڑی نگاہ رکھے گی۔
ادھر ملک کے سب سے بڑے اردو روزنامے "جنگ" نے بھی اپنے ایک تبصرے میں جسٹس جاوید اقبال کے والدین کے قتل اور لاپتہ افراد کے کیس کے ممکنہ تعلق کی نشاندہی کی ہے۔
بدھ کی اشاعت میں صفحہ اول پر شائع کیے گئے ایک تبصرے میں اخبار نے قانونی حلقوں کے حوالے سے کہا ہے کہ "تفتیشی ایجنسیاں تحقیقات کے دوران اس پہلو پر بھی خصوصی توجہ دینگی کہ کہیں اس قتل کا تعلق لاپتہ افراد کے کیس سے تو نہیں ہے"۔
پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے بھی سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کے والدین کے قتل کی شدید مذمت کی ہے ۔ کمیشن کے صدر ڈاکٹر مہدی حسن کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر اس قتل کے ذریعے اعلیٰ عدالتوں کے ججز کو کسی قسم کی دھمکی دینا مقصود تھا تو یہ درحقیقت قتل سے کہیں زیادہ سنگین معاملہ ہے۔