ایک روز قبل کابل کے قریب ہونے والے متعدد دہشت گرد دھماکوں کے بعد، جس میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، طالبان نے افغانستان میں ایک اور مہلک خودکش کار بم حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ کو بھیجے گئے ایک بیان میں، طالبان نے کہا ہے کہ شمالی صوبہٴ قندوز کے خان آباد ضلعے میں ہفتے کو ہونے والے دھماکے کے پیچھے اُسی کا ہاتھ ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دھماکے کے نتیجے میں حکومت کی حامی ملیشیا کے کم از کم 22 ارکان ہلاک ہوئے۔
طالبان کے بانی، ملا محمد عمر کی ہلاکت اور طالبان کی جانب سے اس بات کی تصدیق کہ وہ نئی قیادت کے تحت کام کر رہی ہے، دہشت گردی کا یہ بدترین مظاہرہ تھا، جس سے افغان دارالحکومت پریشان جب کہ عوام خوفزدہ ہے۔
طالبان نے اس بات کی ذمہ داری قبول کی ہے کہ اُنھوں نے ہی جمعے کے روز ’کیمپ انٹیگرٹی‘ پر حملے کے لیے تین خودکش بم حملہ آور روانہ کیے تھے، جو کابل کے اہم ہوائی اڈے کے قریب امریکی اسپیشل فورسز کا بیس ہے۔ اس حملے میں آٹھ سولین فوجی ٹھیکیدار اور نیٹو کا ایک اہل کار ہلاک ہوئے۔
اس سے قبل جمعے کو طالبان سے تعلق رکھنے والا ایک خودکش بم حملہ آور، جس نے پولیس کی وردی پہن رکھی تھی، کابل میں افغان پولیس اکیڈمی پر کیڈٹس کے ایک مجمعے کے سامنے اپنے آپ کو بھک سے اڑا دیا۔
واقع میں کم از کم 12 افراد ہلاک جب کہ 25 سے زائد زخمی ہوئے۔
تاہم، جمعے کے روز ہونے والے ٹرک بم حٕملے کی ابھی تک کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔ یہ حملہ کابل کے ایک رہائشی علاقے میں ہوا، جس میں کم از کم 15 افراد ہلاک جب کہ 240 زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تعداد شہریوں کی تھی۔