|
امریکہ کی نائب صدر کاملا ہیرس نے پیر کے روز باضابطہ طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی نامزدگی حاصل کر لی ہے۔
کاملا ہیرس کی نامزدگی سے یوں وہ کسی بڑی پارٹی کی قیادت کرنے والی پہلی غیر سفید فام خاتون بن گئی ہیں۔
وہ تارکینِ وطن کی بیٹی ہیں۔ کاملا ہیرس کیلی فورنیا کے سیاسی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے شعبوں میں ترقی کرکے امریکہ کی تاریخ میں پہلی خاتون نائب صدر رہی ہیں۔
چار سال قبل انہوں نے امریکہ کی صدارت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔
اب ان کی ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار کے طور پر نامزدگی جماعت کے ہنگامہ خیز دور کے اختتام کو ظاہر کرتی ہے۔
صدر جو بائیڈن کی جون میں ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے ہمراہ پہلے مباحثے میں خراب کارکردگی نے ان کے دوبارہ انتخاب کے امکانات کے بارے میں ان کے حامیوں کے اعتماد کو توڑ دیا۔
اس کے بعد پارٹی کے اندر ایک غیر معمولی تنازع شروع ہوا کہ انہیں صدارتی مہم کی دوڑ میں رہنا چاہیے یا وہ دستبردار ہو جائیں۔ بعد ازاں انہوں نے دستبردار ہونے کا اعلان کیا اور کاملا ہیرس کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کیا۔
صدر بائیڈن کے دست بردار ہونے کے بعد ہیرس اور ان کی ٹیم نے اپنی نامزدگی کو محفوظ بنانے کے لیے پارٹی کے 1976 مندوبین کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دی تھی۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق انہوں نےمطلوبہ تعداد میں ڈیلی گیٹس کی حمایت پہلے 32 گھنٹوں ہی میں پوری کرلی تھی۔
ان کی نامزدگی ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن کے مندوبین کی آن لائن ووٹ کے پانچویں راؤنڈ میں سرکاری طور پر انہیں حاصل ہو گئی۔ پارٹی کے 99 فی صد مندوبین نے ہیرس کے حق میں ووٹ دیا ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی اس ووٹ کی رسمی طور پر رواں ماہ شکاگو میں ہونے والے کنونشن میں توثیق کرے گی۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ اور این او آر سی سینٹر برائے پبلک افیئرز ریسرچ نے جو بائیڈن کے صدارتی دوڑ سے دستبردار ہونے کے بعد پول کرایا تھا جس کے مطابق 46 فیصد امریکی ہیرس کے بارے میں موافق جب کہ لگ بھگ اتنے ہی تناسب سے امریکی ان کے لیے غیر موافق رائے رکھتے ہیں۔
زیادہ تر ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ وہ بائیڈن کے مقابلے میں کاملا ہیرس کے امیدوار نامزد ہونے سے مطمئن ہیں۔
ہیرس نے پہلے ہی سے یہ کہہ رکھا ہے کہ وہ ان ایشوز اور پالیسیوں سے ہٹنے کا ارادہ نہیں رکھتیں جو بائیڈن کے امیدوار بننے کا سبب تھیں۔ ان میں جمہوریت، گن وائلنس کی روک تھام اور اسقاط حمل کے حقوق شامل ہیں۔
ہیرس ان موضوعات پر بائیڈن کے مقابلے میں زیادہ شدید انداز اپنا سکتی ہیں۔
ریاست کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے ڈیمو کریٹک سینیٹر الیکس پڈیلا نے کہا ہے کہ نئی نسل کی اس انوکھی آواز کو دیکھا جائے۔ ان کو ایک پراسیکیوٹر اور ایک عورت کی حیثیت سے دیکھا جائے جب کہ بنیادی حقوق، خاص طور پر تولیدی حقوق داؤ پر ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے تاریخ کے اس لمحے میں ستارے کاملا ہیرس کے حق میں ہیں۔
سال 2020 کی پرائمریوں کے خاتمے سے پہلے واشنگٹن میں ہلچل
کاملا ہیرس 20 اکتوبر 1964 کو ریاست کیلیفورنیا کے شہر اوکلینڈ، میں شیاملا گوپالن کے ہاں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ چھاتی کے کینسر کی ایک سائنس دان تھیں جو 19 سال کی عمر میں بھارت سے امریکہ آئی تھیں۔
ان کے والد ڈونلڈ ہیرس اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے ایمریٹس پروفیسر تھے جو جمیکا سے آکر امریکی شہری بنے تھے۔ ان کے والدین کی شہری حقوق کے لیے وکالت نے کاملا ہیرس کو وہ چیز فراہم کی جسے وہ بچپن میں دیکھی گئی تحریک کے طور پر بیان کرتی ہیں۔
کاملا ہیرس نے 2010 میں ریاست کیلی فورنیا کے اٹارنی جنرل کے عہدے پر فائز ہونے اور2016 میں امریکی سینیٹر منتخب ہونے سے قبل بے ایریا میں پراسیکیوٹر کے طور پر کئی سال کام کیا۔
بطور سینیٹر ہیرس واشنگٹن میں اس وقت آئیں جب سابق صدر ٹرمپ کے غیر مستحکم دور کا آغاز تھا۔ ہیرس نے جلد ہی خود کو نئے صدر کی پالیسیوں کے ایک قابل اعتماد لبرل مخالف کے طور پر منوایا۔ انہوں نے اس وقت اپنی صدارتی امیدواری کے بارے میں قیاس آرائیوں کو جنم دیا۔
انہوں نے عدلیہ کمیٹی میں جگہ بنائی اور سپریم کورٹ کے جسٹس بریٹ کیوانا سمیت ٹرمپ کے نامزد امیدواروں سے پوچھ گچھ کرنے کے لیے کر کے قومی سطح پر توجہ حاصل کی ۔
سال 2017 کی ایک سماعت کے دوران ہیرس نے جب اس وقت کے اٹارنی جنرل جیف سیشنز پر روسی شہریوں کے ساتھ ممکنہ بات چیت کےمعاملے پر زور ڈالا تو سیشنز نے کہا "میں اتنی جلدی جلدی نہیں کر سکتا، مجھے اس سے گھبراہت ہوتی ہے۔"
کاملا ہیرس نے اپنی 2020 کی صدارتی مہم کا آغاز بہت اچھے طریقے سے کیا تھا۔ اس وقت ان کا موازنہ سابق صدر باراک اوباما سے کیا گیا۔ ہیرس نے اپنے آبائی گھر میں 20,000 سے زیادہ لوگوں کے مجمعے سے اپنی مہم کا آغاز کیا۔
تاہم، ہیرس نے ریاست آئیووا میں نامزدگی کے پہلے مقابلے سے پہلے پرائمری ریس سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا۔ ان کے اس فیصلے کے محرکات میں ان کے عملے کے منظر عام پر آنے والے اختلافات اور مہم کو خاطر خواہ رقم حاصل کرنے میں ناکامی شامل تھے۔
انہیں ڈیموکریٹک ووٹروں کے سامنے اپنے منشور کو مستقل طور پر پیش کرنے میں جدوجہد کا سامنا رہا۔ وہ صحت کی دیکھ بھال جیسے اہم مسائل پر متزلزل نظر آئیں۔
ہیرس نے تجویز پیش کی کہ وہ حکومت کے زیر انتظام نظام - "میڈیکیئر فار آل" کوریج کے لیے نجی انشورنس کو ختم کرنے کی حمایت کریں گی۔ جبکہ ان کے اپنے منصوبے میں پرائیویٹ انشورنس شامل تھی ۔ اب، ہیرس نے اپنیعام انتخابات کی مہم کے دوران زیادہ لبرل موقف کو تبدیل کر لیا ہے۔ ان میں فریکنگ پر پابندی کی تجویز شامل ہو جو انہوں نے 2019 میں دی تھی۔
رواں سال 2020 ک انتخابی مہم میں انہوں اپنے قانون نافذ کرنے کے پس منظر کو بطور اثاثہ پیش کیا ہے۔