رسائی کے لنکس

کراچی کی گارمنٹ فیکٹری میں آگ کا مقدمہ جرمن عدالت سے خارج


کراچی میں گارمنٹ فیکڑی میں لگی آگ کو فائربریگیڈ کی گاڑیاں بجھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ 12 ستمبر 2012
کراچی میں گارمنٹ فیکڑی میں لگی آگ کو فائربریگیڈ کی گاڑیاں بجھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ 12 ستمبر 2012

جرمنی کی عدالت کے ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ اپیل، مقررہ دو سالہ مدت کے بعد دائر کی گئی تھی۔ عدالت نے وکلاء کی جانب سے موقف پیش کئے جانے کے بعد اسے زائد المعیاد ہونے کی بنا پر خارج کر دیا۔

کراچی میں 6 سال سے زیادہ عرصے پہلے ایک گارمنٹ فیکٹری میں آگ لگنے سے ہلاک ہونے والے 258 افراد کے معاوضے کی ادائیگی سے متعلق دائر مقدمہ جرمنی کی عدالت نے خارج کردیا ہے۔

متاثرین کی تنظیم نے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے چیلنج کرنے کے لئے وکلاء سے صلاح مشورے شروع کر دیے ہیں۔

عدالت نے سانحہ میں ہلاک ہونے والوں کے تین ورثاء اور ایک زخمی ہونے والے ایک شخص کی جانب سے اپیل کی مزید سماعت سے یہ کہہ کر انکار کر دیا اسے معیاد ختم ہونے کے بعد دائر کیا گیا تھا۔

اپیل دائر کرنے والے پاکستانی شہریوں کا موقف ہے کہ جرمن کمپنی ’کے آئی کے‘، علی انٹرپرائز سے گارمنٹس خرید کر فروخت کرتی تھی لیکن کمپنی نے فیکٹری میں جان بچانے اور آگ بجھانے کے آلات اور حفاظتی انتظامات پر کبھی کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔

دعوے داروں کے مطابق 258 افراد کے جل کر ہلاک ہونے کا الزام جرمن کمپنی پر بھی عائد ہوتا ہے اور وہ ہلاک ہونے والے افراد کے اہل خانہ کو معاوضے کے طور پر 30 ہزار یورو فی کس ادا کرے۔

جرمنی کی عدالت کے ترجمان نے جمعرات کو مقامی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ اپیل، اس سلسلے میں مقررہ دو سالہ مدت کے بعد دائر کی گئی تھی۔ عدالت نے وکلاء کی جانب سے موقف پیش کئے جانے کے بعد اسے زائد المعیاد ہونے کی بنا پر خارج کر دیا۔

ادھر کراچی میں سانحہ بلدیہ متاثرین کی ایسوسی ایشن کی راہنما اور جرمنی میں دائر کیس کے دعوے داروں میں شامل سعیدہ خاتون نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہیں جرمن عدالت کے اس فیصلے پر افسوس ہے۔

سعیدہ خاتون کا کہنا تھا کہ عدالت کو انسانی بنیادوں پر اس کیس کو سننا چائیے تھا کیونکہ متاثرہ غریب خاندان انتہائی کرب سے گزرے ہیں جس کا کچھ تو مداوا ہونا چائیے۔

سعیدہ خاتون کا اپنا بیٹا بھی اس اندوہناک واقعے میں جل کر ہلاک ہو گیا تھا۔ انہوں نے روتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ یورپی قوانین کے تحت بھی کمپنی کو علی انٹرپرائزز میں حفاظتی اقدامات کو یقینی بنوانا چائیے تھا۔ اگر فیکٹری اس پر عمل پیرا نہیں تھی تو انہیں آردڑز منسوخ کر دینا چاہئے تھا تاکہ گارمنٹ فیکٹری کو مزدوروں کی زندگی کے تحفظ کے اقدامات کو یقینی بنانے پر مجبور کیا جا سکتا، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا۔

سعیدہ خاتون نے کہا کہ وہ فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کے لئے اپنے وکلاء سے مشورہ کر رہی ہیں۔ جرمنی کی عدالت میں مقدمہ دائر کرنے اور متاثرین کو قانونی معاونت فراہم کرنے والے ادارے ’یورپی مرکز برائے انسانی و آئینی حقوق‘ نے بھی کہا ہے کہ وہ مدعاعلیہان کی جانب سے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا سوچ رہا ہے۔

بیشتر متاثرین کو حکومت کی جانب سے کچھ امداد تو ملی تھی لیکن فیکٹری مالکان کی جانب سے آج تک کسی قسم کی کوئی امداد یا معاوضہ نہیں دیا گیا۔ اس بارے میں فیکٹری مالکان کا موقف بدلتا رہا ہے۔ مالکان پہلے اسے حادثہ قرار دیتے رہے مگر کئی سال بعد اس کیس کی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے انہوں نے بیان دیا تھا کہ فیکٹری کو بھتہ نہ دینے کی بناء پر آگ لگائی گئی تھی۔

فیکٹری میں آگ لگانے کے الزامات کے تحت کراچی میں کئی ملزموں کے خلاف مقدمہ انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت میں زیر سماعت ہے جس میں گرفتار دو افراد میں سے ایک کا تعلق کراچی کی ایک سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ سے بھی رہا ہے۔

پولیس کا الزام ہے کہ ملزمان نے 35 کروڑ روپے بھتہ نہ دینے پر فیکٹری میں آگ لگائی تھی جس سے 258 افراد جل کر ہلاک ہو گئے تھے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG