پاکستان کے اقتصادی مرکز اور سب سے بڑے شہر کراچی میں چار روزہ فیشن ویک کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس فیشن ویک میں اٹھائیس کے قریب ڈیزائنرز حصہ لے رہے ہیں جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے جبکہ ملبوسات میں مغربی طرز نمایاں ہے۔
کراچی فیشن ویک کے آرگنائزر ارشد صدیقی نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ایونٹ کا بنیادی مقصد نئے ڈیزائنرز کے کام کو مقامی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں متعارف کرواکر پاکستان کی تجارت اور برآمدات کو بڑھانا ہے ۔
فیشن ویک کی خاص بات یہ ہے کہ اسے دیکھنے کے لیے امریکہ، آسٹریلیا ، آئرلینڈ اور جرمنی سمیت بائیس کے قریب ممالک سے خریدار پاکستان آئے ہیں ۔ تاہم منتظمین کے لیے ان خریداروں کو پاکستان آنے کے لیے قائل کرنے کا مرحلہ آسان نہیں رہا۔
ارشد صدیقی نے کہا ” پاکستان کے مقامی میڈیا پر جس طرح سے یہاں کے حالات و واقعات کی تشہیر کی جاتی ہے اس کے تناظر میں یہ لوگ یہاں آنے سے خوف کھارہے تھے کہ جیسے پاکستان کوئی بہت خطرناک ملک ہے ۔ مگر یہاں آنے کے بعد یہ لوگ خود اس بات کو مان رہے ہیں کہ ایسا نہیں ۔ اسپین کے ایک خریدار نے بتایا کہ بم دھماکے تو اسپین میں بھی ہوئے لیکن وہاں ان چیزوں کو ہائی لائٹ نہیں کیا جاتا ۔ اگر ہم اپنی خوشیوں ، امن، کاروبار، برآمدات کو ہائی لائٹ نہیں کریں گے تو کام کیسے ہوگا۔ یا تو رو لیں یا کام کر لیں۔ “
مگر منتظمین اس بات سے بہت خوش ہیں کہ غیر ملکی خریداروں کو ان نئے ڈیزائنرز کا کام بہت پسند آرہا ہے اور پہلے روز سے ہی انھیں آرڈرز ملنا شروع ہوگئے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت جو نئے فیشن ڈیزائنرز کام کر رہے ہیں وہ اس شعبہ میں باقاعدہ تعلیم لے کر آگے آئیں ہیں اور یہ نیا ٹیلنٹ بہت باصلاحیت ، مستعداور مختلف سوچ کا حامل ہے۔
پاکستان میں امن و امان کی خراب صورتِ حال اور توانائی کے بحران کے سبب ٹیکسٹائل کی صنعت زوال کا شکار ہے اوراس مد میں برآمدات بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔
منتظم ارشد صدیقی کہتے ہیں کہ فیشن ایک سنجیدہ کاروبار ہے اور موجودہ دنیا میں جو بھی اسے نظر انداز کرے گا وہ تنزل کی طرف جائے گا۔ ”پانچ یا پچاس ہزار کے کپڑے یا پھر شرارہ اور غرارہ فیشن نہیں ۔ فیشن روز مرہ استعمال کے ملبوسات یا پانچ سو روپے کے سوٹ میں خود کو اچھی طرح سے پیش کرنے کا نام ہے۔“ وہ بتاتے ہیں کہ ہمارا کپڑا بھارت کے کپڑے سے اچھا ہے لیکن انھوں نے حکومتی سطح پر اس شعبے پر توجہ دے کر خود کو منوا لیا ہے۔ اس لیے اگر پاکستان میں کاروبار کو بڑھانا ہے تو فیشن انڈسٹری پر سنجیدگی سے توجہ دینی ہوگی ۔
منتظمین پر امید ہیں کہ اس ایونٹ سے پاکستان میں فیشن کے رجحان میں مزید بہتری آئے گی اور پاکستانی ڈیزائنرز کو بین الاقوامی مارکیٹ میں کام کرنے کے مواقع بھی ملیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ کراچی میں اس کا انعقاد کر کے انھوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ جرائم کی شرح دنیا کے ہر شہر میں ہے لیکن وہاں اچھے لوگ بھی رہتے ہیں ۔ اسی طرح پاکستان یا کراچی میں بھی رہنے والے لوگ دہشت گرد نہیں بلکہ امن پسند ہیں۔