رسائی کے لنکس

کراچی: بدامنی، لسانی گروہ بندی کے سبب مدرسوں کے رجحان میں اضافہ


مردسے میں دینی تعلیم کا ایک منظر
مردسے میں دینی تعلیم کا ایک منظر

کراچی میں طویل مدت سے جاری بدامنی اور لسانی گروہ بندی اس درجہ بڑھ گئی ہے کہ شہر کے مختلف علاقے مختلف لسانی شناخت رکھنے والوں تک محدود ہوگئے ہیں ۔

کراچی میں طویل مدت سے جاری بدامنی اور خاص کر لسانی گروہ بندی نے تعلیم کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور اس کے اثرات واضح ہونا شروع ہوگئے ہیں۔یہ گروہ بندی اس درجہ بڑھ گئی ہے کہ شہر کے مختلف علاقے مختلف لسانی شناخت رکھنے والوں تک محدود ہوگئے ہیں ۔ ایک علاقہ دوسرے علاقے والے کے لئے ”نوگو ایریا“ ہے۔

اورنگی ٹاوٴن کے قریبی علاقے قصبہ کالونی کی ہی مثال لے لیجئے۔ یہ اردواور پشتو،2 الگ الگ زبانیں بولنے والوں کی بستی ہے۔ ویسے توکئی بار کے لسانی و گروہی فسادات اس بستی نے دیکھے ہیں مگر جون2011ء میں ہونے والے پرتشدد واقعات اور لسانی جھگڑوں نے وہ رخ اپنایا کہ تعلیمی اداروں خاص کر اسکولزتک اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

فسادات کے سبب علاقے میں موجود تقریباً30 سرکاری اسکولوں کو مستقل طور پر محض اس لئے بند کر دیا گیا کہ ان اسکولوں کے چارسو اساتذہ نے خوف کے مارے ایک دوسرے کے علاقوں میں آنا بند کر دیا تھا ۔اسکولوں کے سبب ایک جانب تو 25ہزار طلباء کا مستقبل غیر یقینی ہوگیا تو دوسری جانب لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے بچوں کو مدرسوں میں داخل کرادیا۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے انٹی گریٹیڈ ریجنل انفارمیشن نیٹ ورکس یعنی آئی آر آئی این کی ایک رپورٹ کے مطابق قصبہ کالونی کی مرکزی سڑک کے ساتھ بڑھتے ہوئے منشیات فروشوں کے اڈے اور ان پر ہیروئن و حشیش خریدتے نوجوانوں کا ہجوم گواہی دیتا ہے کہ” سب کچھ صحیح نہیں ہے“۔

ایک اسکول کی گولیوں سے چھلنی دیواریں ، تین اسکولوں کی تباہ حال عمارتیں اور ایک اسکول کی کچرا گھر میں تبدیلی تعلیم کی تباہی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ عرصے تک پشتو بولنے والے ٹیچرز، اردو بولنے والوں کے علاقوں اور اردو اسپیکنگ ٹیچر ز کی پشتو ن آبادی تک بے روک ٹوک آمد و رفت تھی لیکن حالیہ برسوں میں صورتحال یکسر بدل گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق علاقے کی 2بااثر سیاسی جماعتوں، متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کے درمیان آنے دن ہونے چتقلش نے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کالونی میں ہر ہفتے دس سے بارہ وارداتیں ہوتی ہیں۔زیادہ تر وارداتوں میں نوجوان ملوث پائے جاتے ہیں۔ تعلیمی ادارے بند ہونے کے بعد سے نوجوانوں میں جرائم کا رجحان بڑھ گیا ہے کیونکہ ان کے پاس اب کرنے کے لئے کچھ نہیں رہا۔

مقامی اسکول ٹیچر ساجد حسین کا کہنا ہے کہ جو طالبعلم اسکول جایا کرتے تھے اب سڑکوں پر فضول گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں ۔ان میں سے اکثر کوحالات خراب ہونے کا انتظاررہتا ہے ، خراب حالات اور افراتفری کے عالم میں وہ آسانی سے لوگوں کی جیبیں کاٹ لیتے یا اوراس نوعیت کے چھوٹے موٹے جرائم آسانی سے کرلیتے ہیں۔

محدود آپشنز۔
اس ساری صورتحال میں تعلیم کے حوالے سے مقامی لوگوں کے پاس دو ہی آپشنز رہ گئے۔ ایک مہنگے پرائیوٹ اسکول اور دوسرا مدرسے۔اکثریت نے مدرسے کا انتخاب کیا جس کی وجہ دن میں دو وقت کے کھانے اوررات کو سونے کے لئے جگہ مل جاتی ہے۔

سول سوسائٹی کے ممبراور انیس سو چھیانوے سے مدرسوں میں اصلاحات کے لئے مہم چلانے والے عبدالوحید خٹک کے مطابق ”مدرسے چھتری کی طرح ہیں ،جن افراد کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا، وہ مدرسے میں پناہ لے لیتے ہیں اور وہاں انہیں کھانا، تعلیم اور سونے کوجگہ سب ملتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے مدرسوں میں جاکر خواتین ٹیچرز کو بھرتی کرنے اور بچیوں کو مدرسے سے بھیجنے کے لئے باقاعدہ مہم چلائی جو ناکام ہوئی۔ اس ناکامی کی وجہ زیادہ تر مدرسوں میں سخت گیر سربراہوں کا ہونا اور اٹھارویں صدی میں پڑھایا جانے والا درس نظامی کا نصاب تھا۔

قصبہ کالونی کے رہائشی ایک ٹیچر نے بتایا”قصبہ کالونی کی ہر دوسری گلی میں مدرسہ قائم ہے لیکن ایک یا دو مدرسوں کے علاوہ کوئی بھی رجسٹرڈ نہیں۔ان مدرسوں میں تقریبا پندرہ ہزار طالبعلم ہیں۔“

غیر رجسٹرڈ مدرسوں کو ہر وقت بند ہونے کا خطرہ لگا رہتا ہے جبکہ انہیں کسی قسم کی حکومتی مدد بھی نہیں ملتی۔دوہزار دو میں سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں پہلی مرتبہ مدارس کو ریگیولیٹ کرنے کی کوشش کی گئی اور ’مدارس رجسٹریشن آرڈیننس ‘ (ایم آر او)منظور کیا گیا۔یہ و ہ وقت تھا جب پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی بننے کا فیصلہ کیا تھا۔

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے ڈین شکیل اوج کے مطابق آرڈی نینس پاس کرنے کا مقصد مدرسوں پر غیر ملکی اثر ورسوخ کوکم کرنا تھاتکہ مستقبل میں دہشت گردی کی روک تھام کی جاسکے۔ایم آر او کے تحت تمام مدرسوں کے لئے انگلش،اردو،ریاضی اور سائنس کو نصاب میں شامل کرنا لازمی قرار دیا گیا۔ مدرسوں کا نصاب عموماً دینی تعلیم پر مشتمل ہوتا ہے۔ غیر ملکی طلباء اور اساتذہ کے لئے وزارت داخلہ سے نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ(این او سی) کی شرط بھی رکھی گئی ۔

انتہا پسندی کا فروغ؟
مدرسوں کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ بیرونی ذرائع سے حاصل ہونے والی امداد پر چلتے ہیں جس کا مقصد مخصوص قسم کے نظریات کو فروغ دینا ہوتا ہے۔

حکومتی اور غیر حکومتی ماہرین پر مشتمل تعلیم کے لئے قائم ٹاسک فورس ’ ایجوکیشن ایمرجنسی رپورٹ ‘ کے مطابق تعلیمی نظام پر مدرسوں کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کے بارے میں کی جانے والی باتیں حقیقت پر مبنی نہیں۔ صرف چھ فیصد پاکستانی طالب علم مدرسے جاتے ہیں۔

اس کے برعکس کراچی یونیورسٹی کے پاکستان اسٹڈی سینٹر کے چیئرمین جعفر احمد کا کہنا ہے کہ دوہزار گیارہ میں مدرسوں میں داخلہ لینے والوں کی تعداد میں دو اعشاریہ ایک فیصد اضافہ ہوا ۔

حکومت پاکستان اور امریکی ایجنسی برائے انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق دو ہزار گیارہ میں مدارس میں پڑھنے والوں کی تعداد سترہ لاکھ تھی۔مدرسوں کے پھیلنے کی وجہ حکومت کی جانب سے کھانے، چھت اور تعلیم کی عدم فراہمی بھی ہے۔مدرسے سے تعلیم پانے والوں میں ’وہائٹ کالر جاب‘ حاصل کرنے کی بھی قابلیت نہیں ہوتی۔

کراچی کے جامعہ بنوریہ سے گریجویشن کرنے والے ایک طالبعلم کا کہنا تھا کہ ہمیں اسلام کی خدمت کرنے کا سبق دیا جاتا ہے۔ اسلام کی خدمت کا مطلب مسجد یا مدرسے کی تعمیر کرنا یا کسی مدرسے میں ٹیچر لگ جانا ہے۔‘
XS
SM
MD
LG