لیاری میں جرائم پیشہ افراد اور پولیس کے درمیان جاری گھمسان کی جنگ میں پیر کومزید چھ افراد ہلاک ہوگئے جبکہ 5گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔ ادھر پولیس نے گینگ وار میں ملوث دودرجن سے زائد افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس طرح اتوار کی رات بارہ بجے سے پیر کی رات 12بجے تک 24گھنٹوں کے دوران ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 24ہوگئی ہے۔ یعنی ہر گھنٹے پولیس کے ہاتھوں ایک جرائم پیشہ فرد کی موت۔
ادھر آپریشن کے خلاف احتجاج شہر کے دوسرے حصوں میں بھی پھیلتا جارہا ہے۔ آئی سی آئی پل احتجاج کا مرکز بناہوا ہے۔ یہاں احتجاج کے سبب علاقے میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوگیا اور کئی گھنٹے تک ٹریفک جام رہا ،یہاں تک کہ حالات پر قابو پانے کے لئے پولیس کو طلب کرنا پڑا جس نے مظاہرین کومنتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج کیا۔ مظاہرین لیاری آپریشن فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔ اس موقع پر پولیس کو ہوائی فائرنگ بھی کرنا پڑی۔
ادھر لیاری آپریشن میں رد عمل کے طور پر کئی علاقوں میں فائرنگ اور جلاوٴ گھیراوٴ کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں۔ شیرشاہ میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے تین افراد کو ہلاک کردیا۔ ایک اور واقعہ میں پنکھا ہوٹل کے قریب دو کوچز اور ایک کار کو آگ لگادی گئی۔
مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ لیاری میں ڈھائی ماہ کے دوران پانچ آپریشن ہوچکے ہیں جبکہ چھٹا آپریشن جاری ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ جیسا انتظامیہ ، پولیس اور سی آئی ڈی اس آپریشن کو کسی حتمی اور منطقی انجام کو پہنچانا چاہتی ہے اسی سبب آپریشن میں پیر کے رو ز سے اچانک تیزی محسوس کی جاری ہے۔
لیاری میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف جاری آپریشن کے خلاف حیرت انگیز طور پر شہر اوردوسرے صوبوں خصوصاً بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اس آپریشن کے لئے احتجاجات کا سلسلہ بھی زور پکڑتا جارہاہے۔ بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ ہوا جس میں مظاہرین نے آپریشن کیخلاف نعرے لگائے اور شہر کے درمیان سے گزرنے والی آر سی ڈی شاہراہ پر ٹائر جلائے۔
دوسری جانب کراچی کے علاقوں جہانگیر روڈ، ملیر سٹی ، پرانا گولیمار اور جہانگیر روڈ پر بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ ان مظاہروں میں آپریشن کرنے والے اداروں اور انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ لیاری میں آپریشن فی الفور بند کیا جائے، بلوچوں کا قتل عام بند کیا جائے، لیاری کو فوج کے حوالے کیا جائے ۔
پاکستان کے سب سے بڑے اور موخر اخبار روزنامہ جنگ کی ایک رپورٹ کے مطابق اتوار کے روز ایک کالعدم تنظیم ’بلوچ ری پبلکن آرمی‘ کے ترجمان سرباز بلوچ نے نامعلوم مقام سے سیٹلائیٹ فون پر لیاری میں راکٹ حملوں کی ذمہ داری قبول کرلی ۔
اخبار کے مطابق ترجمان نے بتایا کہ بلوچ مزاحمت کاروں نے کراچی کے علاقے لیاری میں ریاستی فورسز پر راکٹوں سے حملہ کیا ۔ ترجمان نے کہا کہ” لیاری میں ریاستی فورسز نہتے بلوچ عوام پر جارحانہ آپریشن کررہی ہیں جو کسی قسم کے جرائم میں ملوث نہیں ۔بلوچ عوام کے قتل عام کے خلاف ہم نے فورسز پر حملہ کیا ہے اور ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ جہاں بھی بلوچوں کے خلاف آپریشن کیا جائے گا ہم فورسز کو نشانہ بنائیں گے۔“
مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ لیاری میں ڈھائی ماہ کے دوران پانچ آپریشن ہوچکے ہیں جبکہ چھٹا آپریشن جاری ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ جیسا انتظامیہ ، پولیس اور سی آئی ڈی اس آپریشن کو کسی حتمی اور منطقی انجام کو پہنچانا چاہتی ہے اسی سبب آپریشن میں پیر کے رو ز سے اچانک تیزی محسوس کی جاری ہے۔
مقبول ترین
1