کراچی کے مضافاتی علاقے، کچی پکی بستیاں اور گوٹھ آج کی جدید دنیا میں بھی معمولی معمولی چیزوں کے استعمال سے کوسوں دور ہیں۔ غربت، بے روزگاری اور غذائی قلت یہاں کے ایسے سنگین مسئلے ہیں کہ ملک کی 64 سالہ تاریخ میں برسر اقتدار آنے والی متعدد حکومتیں، درجنوں وزیر اعظم اورکئی صدوربھی ان بستیوں کے مکینوں کی قسمت نہ بدل سکے۔ خوراک کے ماہرین، سائنس دانوں اور ڈاکٹر ز کی تحقیق کا تقاضہ ہے کہ انسانی زندگی کے لیے روزانہ 2 انڈوں سے بہتر خالص اور بھر پور غذا اور کوئی نہیں۔ لیکن یہاں کے مکینوں کے لئے انڈے خریدنااور روزانہ کھانا 'سہانا خواب' ہے۔ یہاں انڈے تبھی کھائے جاتے ہیں جب بیماری شدید ہو اور بستر سے لگادے۔ بچوں کے لئے تو انڈے ہیں ہی نایاب، جوان پیسے بچانے کی خاطر اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور حاملہ خواتین کے لئے انڈے نہایت ضروری ہیں، یہ بات یہاں ہرکوئی نہیں جانتا۔
کہنے کے لئے تو انڈے نہایت معمولی چیز ہیں اور بھرپور غذائی اشیاء میں یہ سب سے چھوٹی شے تصور ہوتی ہے لیکن روزانہ2 انڈے کھانا ان بستیوں میں 'کھلی عیاشی' ، 'فضول خرچی' اور'امیروں کے چونچلے' شمار ہوتا ہے ۔ ان بستیوں میں غذائی قلت اور خراب انسانی صحت کی وجوہات جاننے کی غرض سے وی او اے کے نمائندے نے حال ہی میں ایک سروے کیا جس سے کئی حیران کن حقیقتیں واضح ہوئیں۔
مثلاًغریب بستیوں میں :
انڈے صحت کے لئے ضروری نہیں سمجھے جاتے اور کبھی کبھار ہی کھائے جاتے ہیں ۔
یہاں انڈوں کو دیگر غذائی اشیاء مثلاً آٹا اور گھی کے مساوی اہمیت نہیں دی جاتی ۔
انڈا تب ہی ضروری سمجھا جاتا ہے جب ڈاکٹر اصرار کرے ۔
عام تاثر یہ ہے کہ انڈا بے شک بہت ضروری سہی مگر اس کے بغیر زندہ رہا جاسکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق بچوں کی نشوونما، ذہانت اور ہڈیوں کی مضبوطی کے لئے انڈے سے بہتر کوئی دوا بھی نہیں۔ حاملہ خواتین کے لئے بھی انڈے دنیا بھر کے غذائی ماہرین ضروری قرار دیتے ہیں کیوں کہ انسانی دماغ اور صحت مند جسم کی نشو نما پروٹین سے ہوتی ہے۔ انڈوں میں زندگی کو جنم دینے اور قائم رکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ انڈے میں لحمیات، چکنائی، مونو، پولی، کولیسٹرول، سوڈیم، کئی قسم کے حیاتین، تھایامین، رائیو فلیون، کیلشیم، فاسفورس، آیوڈین، جست، بائیوٹین، تانبہ اور میگنیشیم پایا جاتا ہے۔
۔۔۔۔ مگر اس کے باوجود نیو کراچی چھ نمبر، پانچ نمبر، کچی آبادی، یوسف گوٹھ، خمیسو گوٹھ اور یارو گوٹھ نامی بستیوں کے مکین انڈوں کو صحت کے لئے ضروری نہیں سمجھتے۔ وی او اے سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ ہماری کم آمدنی روزانہ انڈے کھانے کی اجازت نہیں دیتی۔ ایک صاحب کا کہنا تھا کہ انڈوں کا موجودہ ریٹ اسی روپے فی درجن کے قریب ہے۔ ہر شخص اگر روزانہ دو انڈے کھائے تو مہینے میں 60 انڈے بنتے ہیں۔ ان انڈوں کی قیمت 400 روپے بنتی ہے اور اگر گھر میں پانچ افراد اوسطاً ہوئے تو صرف ایک گھر میں انڈوں کا ماہانہ خرچ 2000 روپے آتا ہے۔ سوچئے ۔۔ پانچ ہزار میں سے دو ہزار انڈوں میں نکل گئے تو باقی خرچوں کا کیا ہوگا؟
متذکرہ بستیاں زیادہ تر چھوٹے چھوٹے نیم پختہ مکانات اور جھونپڑیوں پر مشتمل ہیں۔ یہاں رہنے والوں کی یومیہ آمدنی اوسطاً دوڈالر یعنی ایک سو پچاس سے ایک سو اسی روپے ہے۔ اس حوالے سے مہینے میں ان کی آمدنی ساٹھ ڈالر یا پانچ ہزار روپے بنتی ہے۔ اس قلیل آمدنی میں مکان کا کرایہ، بجلی، گیس، فون، سودا سلف، گوشت، ترکاری۔۔۔ بیماری، شادی، تقریبات، آنے جانے کا کرایہ، بچوں کی پڑھائی اور کپڑوں کی خریداری ممکن نہیں ہوپاتی۔ ایسے میں گزارہ کرنے کے لئے ہر شخص کو پیٹ کاٹنا پڑتا ہے۔
ہوسکتا ہے کچھ لوگ پیٹ کاٹنے کا حقیقی مفہوم نہ سمجھتے ہوں حالانکہ اس سے مراد روز بہ روز کم سے کم تر خرچ میں زندگی کی بنیادی سہولتوں کا حصول ہے۔ مگر چونکہ ہمارے یہاں ہمیشہ آمدنی اور مہنگائی میں چوہے بلی کا کھیل جاری رہتا ہے لہذا مہنگائی ہرماہ بڑھ جاتی ہے جبکہ آمدنی وہی رہتی ہے اس لئے گزارہ کرنے کے لئے ماہانہ چیزوں یعنی گھر کے سودا سلف میں ہر ماہ کٹوٹی کرنا پڑتی ہے۔ مثلاًاگر پہلے ہر ماہ دو ٹوتھ پیسٹ آیا کرتے تھے تو ان کے ریٹ بڑھ جانے کے بعد پہلے سستے ٹوتھ پیسٹ گھر آنے لگے۔ پھر مہنگائی اور بڑھی تو ٹوٹھ پیسٹ دو سے گھٹا کرایک کردیا گیا ۔ اسی طرح اگر پہلے چاول چالیس روپے فی کلو والا خریدا جاتا تھا تو چاول کی جیسے جیسے قیمت بڑھی اس کی مقدار اور کوالٹی بھی کم ہوتی چلی گئی۔
جب چاول جیسی بنیادی خوراک کا یہ حال ہے تو انڈوں کو تو لوگ نظر انداز کریں گے ہی۔ کیوں کہ ان بستیوں میں رہنے والوں کی نظر میں جو اہمیت آٹا، چاول، دال، چینی، گھی اور تیل کی ہے وہ کبھی بھی انڈے کی نہیں ہوسکتی ۔ مکینوں کا کہنا ہے کہ انڈے، جام، جیلی، ماملیٹ، مکھن وغیرہ صرف ناشتے میں بڑے لوگ استعمال کرتے ہیں۔
بستی والوں سے جب یہ پوچھا گیا کہ وہ مہینے میں کب کب انڈے لیتے ہیں تو اکثریت کا یہ کہنا تھا کہ مہینے کی شروع تاریخوں میں جب انہیں تنخواہ ملنے کی خوشی ہوتی ہے تو وہ قریبی ہوٹل میں جاکر انڈے (آملیٹ) پراٹھے کا ناشتہ کرتے ہیں مگر ایسا بھی شاذ ونادر ہی ہوتا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں بیشتر افراد کا کہنا تھا کہ انہوں نے سردی کے رواں موسم میں اب تک ایک بار بھی انڈا نہیں کھایا۔
انہی بستیوں میں موجود ایک کلینک پر بیٹھے ڈاکٹر ادریس انصاری نے اس سے بھی زیادہ حیران کن انکشاف کیا کہ بستی کے اکثر بوڑھے ٹھنڈ لگنے سے بیمارہوجاتے ہیں اور جب انہیں ابلا ہوا انڈا کھانے اور سوپ پینے کا مشورہ دیا جاتا ہے توبیشتر اس قسم کی باتیں کرتے ہیں: "ڈاکٹر صاحب جوانی میں کبھی انڈے نہیں کھا سکے اب بڑھاپے میں کہاں سے لائیں"، "ڈاکٹر صاحب مہنگے نسخے نہ بتایا کری" اور "ڈاکٹر صاحب ابلا ہوا انڈا بیس روپے کا ہے اتنے میں تو ایک پاوٴ دال آجائے گی"۔
اوپر درج کردہ اعداد وشمار میں فارمی انڈوں کے نرخ درج ہیں، دیسی انڈوں کے نہیں ۔ دیسی انڈوں کے ریٹ اور خاص کر سردیوں کے موسم میں دیسی انڈوں کی قیمتیں غریب بستی والوں کے لئے ہی نہیں متوسط طبقے کے لئے بھی ناقابل برداشت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شہر کے کسی بھی حصے میں چلے جایئے دیسی انڈے کا ذکر کہیں نہیں ہوتا نہ ہی دیسی انڈے عام طور پر فروخت کئے جاتے ہیں۔