کراچی اور حیدر آباد میں رواں ہفتے ہونے والی دو روز کی بارش نے سندھ کے دونوں بڑے شہروں کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔
کراچی اور حیدر آباد میں ہونے والی حالیہ بارشوں کے بعد صورتحال تین روز بعد بھی مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکی ہے۔
کراچی کی اہم اور مرکزی شاہراہوں سے برساتی پانی کی نکاسی تو کر لی گئی ہے لیکن کئی اہم مرکزی شاہراہوں پر گڑھے پڑ چکے ہیں جب کہ حیدر آباد کے کئی علاقوں سے اب تک بارش کے پانی کی نکاسی نہیں ہو سکی ہے۔
کراچی میں ہر برسات کے بعد شہر میں سیلابی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ برساتی نالوں کی صفائی نہ ہونے کے سبب شہر کی مرکزی سڑکیں اور رہائشی علاقے تالاب کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں۔
محکمہ موسمیات کی جانب سے کراچی میں بارشوں کی پیش گوئی کے باوجود انتظامیہ شہریوں کو بارش کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال سے بچانے میں ناکام نظر آئی۔
کراچی اور حیدر آباد سمیت کئی اہم شہروں میں بارشوں کے بعد دو روز تک کاروبار زندگی مفلوج رہا۔
بیشتر کاروباری اور تجارتی مراکز بند رہے جب کہ تعلیمی اداروں کے لیے صوبائی حکومت نے تعطیل کا اعلان کر دیا۔
کراچی کی مرکزی شاہراہوں سے پانی کی بر وقت نکاسی نہ ہونے کے سبب شہریوں کو ٹریفک جام کا سامنا کرنا پڑا جس سے شہر میں ٹرانسپورٹ کا نظام درھم برہم ہو گیا۔
ندی نالوں کی صفائی نہ ہونے اور ان پر قائم تجاوزات کے باعث برساتی نالوں کا پانی رہائشی علاقوں اور لوگوں کے گھروں میں داخل ہوگیا۔
بارشوں کے دوران کرنٹ لگنے سے ایک درجن سے زائد افراد ہلاک ہوئے جو کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے ادارے کے الیکٹرک کے انفرا اسٹرکچر میں بھاری سرمایہ کاری کے دعوؤں کی نفی کر رہے ہیں۔
ورلڈ بینک نے گذشتہ سال ایک رپورٹ میں کراچی کے انفرا اسٹرکچر کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے 10 ارب ڈالرز سے زائد کی رقم کی ضرورت کی نشان دہی کی تھی۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ان کی حکومت کراچی کی ترقی کےلیے 162 ارب روپے سے زائد کی رقم خرچ کرے گی۔
بارش کی تباہ کاریوں میں اسٹیک ہولڈرز منقسم
کراچی میں بارش کے بعد پیدا ہونے والی بحرانی صورتِ حال میں شہر کی سیاسی قیادت واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم نظر آئی۔ ایک طرف وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور صوبائی وزیرِ بلدیات سعید غنی نے کراچی اور حیدر آباد کا دورہ کیا وہیں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے گورنر سندھ عمران اسماعیل میئر کراچی وسیم اختر کے ہمراہ دکھائی دیے۔
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے تین اسٹیک ہولڈرز کے درمیان بارش کی تباہ کاریوں کے دوران لفظی جنگ جاری رہی اور دونوں جانب سے شہر میں بارشوں سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرایا جاتا رہا۔
صوبائی حکومت کا مؤقف:
صوبائی وزیرِ بلدیات سعید غنی کا کہنا ہے کہ حکومت نے بلدیہ عظمیٰ کراچی کو نالوں کی صفائی کی مد میں 50 کروڑ روپے بر وقت فراہم کر دیے تھے، لیکن اس کے باوجود نالوں کی صفائی کا کام مکمل نہیں کیا گیا۔
ان کے بقول، بلدیاتی ادارے درست کام نہیں کر رہے اور ہم بحالت مجبوری بلدیہ عظمیٰ کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ اس لیے کوتاہی کی تمام تر ذمہ داری صوبائی حکومت پر ڈالنا مناسب نہیں۔
سعید غنی نے کہا ہے کہ میئر کراچی ہمیشہ ساری ذمہ داری سندھ حکومت پر ڈال دیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کراچی کی بلدیہ عظمیٰ اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر سکتی تو صوبائی حکومت ان کی ذمہ داری نبھانے کو بھی تیار ہے۔
حیدر آباد کے مختلف علاقوں سے پانی کی نکاسی نہ ہونے کی ذمہ داری بجلی فراہم کرنے والے ادارے واپڈا پر ڈالتے ہوئے سعید غنی نے کہا کہ بجلی کی بحالی تک علاقوں سے پانی کی نکاسی ممکن نہیں۔ جب واپڈا والے بجلی بحال کریں گے تو ہی پمپنگ اسٹیشن چلا کر پانی کی نکاسی کی جا سکے گی۔
ایم کیو ایم کا کیا کہنا ہے؟
میئر کراچی اور متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما وسیم اختر کا مؤقف ہے کہ صوبائی حکومت نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور سندھ سالِڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ اپنے اختیار میں رکھا ہوا ہے جب کہ یہ اہم ترین ادارے اور ان کے وسائل کراچی کا میئر ہونے کے ناطے اُن کے کنٹرول میں ہونے چاہیے تھے۔
انہوں نے صوبائی حکومت کے اس بیان کی تردید کی کہ صوبائی حکومت نے بلدیہ عظمیٰ کراچی کو نالوں کی صفائی کے لیے فنڈز دیے ہیں۔
وسیم اختر کا کہنا تھا کہ بلدیہ عظمیٰ اور شہر کی میونسپل کارپوریشنز اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے کام کر رہی ہیں۔ اس لیے ان اداروں سے اس سے زیادہ بہتر نتائج کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
کراچی اور حیدر آباد میں بارش کے بعد کی صورتِ حال پر بات کرتے ہوئے ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے رہنما کنور نوید جمیل نے کہا کہ سندھ حکومت کراچی پر پیسہ لگانے کو تیار نہیں ہے۔ آئین کے آرٹیکل 140 کے تحت شہر کے بلدیاتی اداروں کو خود مختار نہیں کیا جا رہا اور اس کی سزا عوام کو مل رہی ہے۔
تحریک انصاف کہاں ہے؟
حالیہ عام انتخابات میں کراچی سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے اور وفاق میں حکمرانی کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف بھی اس معاملے پر ایم کیو ایم کے قریب نظر آتی ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما اور گورنر سندھ عمران اسماعیل کا کہنا ہے کہ صوبے کے بلدیاتی اداروں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے کوشاں ہے اور کراچی کے بلدیاتی اداروں کو مضبوط بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔