کراچی —
منگل کے روز کراچی شہر میں انسداد پولیو ٹیم کے رضاکاروں پر حملے میں ہلاک ہونے والے تین رضاکاروں میں ایک پولیو رضاکار فہد بھی تھا جو پہلی بار انسداد پولیو مہم میں قطرے پلانے والی رضاکار ٹیم کا حصہ بنا اور جان سے ہاتھ دھوبیٹھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں فہد کی بہن نے غمگین لہجے میں بتایا کہ" فہد کو پولیو رضاکار بننے کا شوق تھا گھر والوں کے منع کرنے کے باوجود وہ چوری چھپے پولیو ٹیم کا حصہ بن گیا۔‘‘
وہ بتاتی ہیں کہ گزشتہ حملوں کی خبروں کے باعث ہم سب گھر والوں نے فہد کو پولیو کے قطرے پلانے کے کام سے روکا تھا کہ "تم کوئی اور کام کرلو مگر وہ نہیں مانا، حملے والے دن پہلی بار اسکی باہر ڈیوٹی لگی تھی جہاں درندوں نے اسے بھی گولیاں مارکر قتل کردیا"۔
فہد کی غمگین بہن کا کہنا ہے کہ "اگر حکومت کی جانب سے بروقت پولیو ٹیم کو سیکیورٹی دے دی جاتی تو ہمارا بھائی بچ جاتا"۔
وہ کہتی ہیں کہ "بھائی کی موت کے بعد ہمیں کسی قسم کی امداد کی ضرورت نہیں، لوگ مرجاتے ہیں اسکے بعد حکومت امدادی رقم کا اعلان کر کے بری الزمہ ہو جاتی ہے۔ کیا حکومتی امداد ہمارے بھائی کو واپس لاسکتی ہے؟ ہمارا بھائی تو چلا گیا بھائی تو واپس نہیں آسکتا یہ نقصان پورا نہیں ہوسکتا۔"
22سالہ فہد خلیل گھر میں سب بہن بھائیوں سے چھوٹا تھا اور حال ہی میں گریجویشن کےامتحانات دےکر فارغ ہوا تھا۔فہد کی موت کی خبر جہاں اس کی والدہ پر قیامت بن کر ٹوٹی ہے وہیں اس کا ہورا خاندان ایسے غم میں مبتلا ہو گیا ہے جسے زندگی بھر نہیں بھلایاجسکتا۔
منگل کو کراچی میں نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بننے والوں میں پولیو رضاکار فہد کے علاوہ دو خواتین بھی شامل ہیں جو انسداد پولیو مہم کے دوران جان سے گئیں،ہلاک ہونے والی دونوں خواتین شادی شدہ اور چھوٹے چھوٹے بچوں کی مائیں ہیں جو دوسروں کے بچوں کو پولیو وائرس سے بچانے کی خاطر اپنے بچوں اور خاندان کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔
کراچی میں پولیو ٹیم ہر یہ حملہ کوئی پہلا حملہ نہیں اس سے قبل 2012 میں ملیر کے علاقے گڈاپ ٹاون،لانڈھی، اورنگی ٹاون اور بلدیہ ٹاون میں بھی پولیو رضاکاروں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے جس میں 10 پولیو رضاکار ہلاک ہوئے۔
منگل کو حملے کی زد میں ہلاک ہونےوالے تینوں رضاکاروں کے لواحقین کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے پانچ، پانچ لاکھ روپے کی امدادی رقم کا اعلان کیا گیا تھا۔
پولیو ٹیم پر قاتلانہ حملے کے بعد پیر سے شروع کی گئی تین روزہ پولیو مہم جاری نہ رہ سکی کراچی میں پولیو ٹیم کو فائرنگ کرکے قتل کیےجانےکیخلاف پولیو رضا کاروں نے انسداد پولیو مہم کا مکمل بائیکاٹ کیا جس سے شہر میں ہزاروں بچے پولیو کے قطرے پینے سے محروم رہ گئے ہیں۔
پولیو ٹیموں کی سکیورٹی کے بارے میں سندھ میں انسداد پولیو کے ڈائریکٹر مظہر خمیسانی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہتے ہیں کہ قیوم آباد محفوظ علاقہ تھا اس لیے بغیر سیکیورٹی کے پولیو مہم جاری رکھی گئی تھی کہ یہ افسوسناک واقعہ پیش آ گیا۔
ان کا مزید کہنا کہ "حکومت سے رابطے کے بعد پولیو کی تمام ٹیموں کو اب ہر علاقے میں سیکورٹی فراہم کی جائے گی خواہ ہمیں سیکیورٹی کے لیے کتنا انتظار کرنا پڑے ہم اس کے بغیر کام شروع نہیں کریں گےکل کے واقعے کےبعد پولیو رضاکاروں میں خوف بڑھ گیا ہے۔"
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں فہد کی بہن نے غمگین لہجے میں بتایا کہ" فہد کو پولیو رضاکار بننے کا شوق تھا گھر والوں کے منع کرنے کے باوجود وہ چوری چھپے پولیو ٹیم کا حصہ بن گیا۔‘‘
وہ بتاتی ہیں کہ گزشتہ حملوں کی خبروں کے باعث ہم سب گھر والوں نے فہد کو پولیو کے قطرے پلانے کے کام سے روکا تھا کہ "تم کوئی اور کام کرلو مگر وہ نہیں مانا، حملے والے دن پہلی بار اسکی باہر ڈیوٹی لگی تھی جہاں درندوں نے اسے بھی گولیاں مارکر قتل کردیا"۔
فہد کی غمگین بہن کا کہنا ہے کہ "اگر حکومت کی جانب سے بروقت پولیو ٹیم کو سیکیورٹی دے دی جاتی تو ہمارا بھائی بچ جاتا"۔
وہ کہتی ہیں کہ "بھائی کی موت کے بعد ہمیں کسی قسم کی امداد کی ضرورت نہیں، لوگ مرجاتے ہیں اسکے بعد حکومت امدادی رقم کا اعلان کر کے بری الزمہ ہو جاتی ہے۔ کیا حکومتی امداد ہمارے بھائی کو واپس لاسکتی ہے؟ ہمارا بھائی تو چلا گیا بھائی تو واپس نہیں آسکتا یہ نقصان پورا نہیں ہوسکتا۔"
22سالہ فہد خلیل گھر میں سب بہن بھائیوں سے چھوٹا تھا اور حال ہی میں گریجویشن کےامتحانات دےکر فارغ ہوا تھا۔فہد کی موت کی خبر جہاں اس کی والدہ پر قیامت بن کر ٹوٹی ہے وہیں اس کا ہورا خاندان ایسے غم میں مبتلا ہو گیا ہے جسے زندگی بھر نہیں بھلایاجسکتا۔
منگل کو کراچی میں نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بننے والوں میں پولیو رضاکار فہد کے علاوہ دو خواتین بھی شامل ہیں جو انسداد پولیو مہم کے دوران جان سے گئیں،ہلاک ہونے والی دونوں خواتین شادی شدہ اور چھوٹے چھوٹے بچوں کی مائیں ہیں جو دوسروں کے بچوں کو پولیو وائرس سے بچانے کی خاطر اپنے بچوں اور خاندان کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔
کراچی میں پولیو ٹیم ہر یہ حملہ کوئی پہلا حملہ نہیں اس سے قبل 2012 میں ملیر کے علاقے گڈاپ ٹاون،لانڈھی، اورنگی ٹاون اور بلدیہ ٹاون میں بھی پولیو رضاکاروں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے جس میں 10 پولیو رضاکار ہلاک ہوئے۔
منگل کو حملے کی زد میں ہلاک ہونےوالے تینوں رضاکاروں کے لواحقین کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے پانچ، پانچ لاکھ روپے کی امدادی رقم کا اعلان کیا گیا تھا۔
پولیو ٹیم پر قاتلانہ حملے کے بعد پیر سے شروع کی گئی تین روزہ پولیو مہم جاری نہ رہ سکی کراچی میں پولیو ٹیم کو فائرنگ کرکے قتل کیےجانےکیخلاف پولیو رضا کاروں نے انسداد پولیو مہم کا مکمل بائیکاٹ کیا جس سے شہر میں ہزاروں بچے پولیو کے قطرے پینے سے محروم رہ گئے ہیں۔
پولیو ٹیموں کی سکیورٹی کے بارے میں سندھ میں انسداد پولیو کے ڈائریکٹر مظہر خمیسانی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہتے ہیں کہ قیوم آباد محفوظ علاقہ تھا اس لیے بغیر سیکیورٹی کے پولیو مہم جاری رکھی گئی تھی کہ یہ افسوسناک واقعہ پیش آ گیا۔
ان کا مزید کہنا کہ "حکومت سے رابطے کے بعد پولیو کی تمام ٹیموں کو اب ہر علاقے میں سیکورٹی فراہم کی جائے گی خواہ ہمیں سیکیورٹی کے لیے کتنا انتظار کرنا پڑے ہم اس کے بغیر کام شروع نہیں کریں گےکل کے واقعے کےبعد پولیو رضاکاروں میں خوف بڑھ گیا ہے۔"