کراچی میں روز بہ روز بڑھتی ہوئی بدامنی اور لاقانونیت کے بعد تجارتی و صنعتی حلقوں کا حکومت سے شہر کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔ کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے ترجمان ایس ایم منیرکا کہنا ہے کہ کراچی کے حالات بظاہر مقامی انتظامیہ کے ہاتھوں سے نکل گئے ہیں ، شہریوں، تاجروں اور صنعت کاروں کی جان ومال کے تحفظ اور شہر میں قیام امن کیلئے فوج کو طلب کرنا لازمی ہوگیا ہے۔
ادھر ایسوسی ایشن کے چیئرمین سید جوہر علی قندھاری کا کہنا ہے کہ ملک کے مفاد اور شہریوں کی قیمتی جانوں کو بچانے کیلئے ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ کراچی کا کنٹرول فوج کے حوالے کیا جائے جو شہر سے ناجائز اسلحے کے خاتمے اور امن قائم کرنے تک اپنی خدمات انجام دیتی رہے۔
سید جوہر علی کے مطابق کراچی میں جاری گینگ وار نے شہر کو میدان جنگ بنادیا ہے اور تاجر وصنعت کار اس صورتحال سے اس قدر پریشان ہیں کہ اپنے کام پر جانے سے خائف ہیں۔ صنعتی پیداوار بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اس صورتحال میں ملکی معیشت بدترین مسائل سے دوچار ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس اور رینجرز لوگوں کو تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہیں۔
تین روز میں پانچ ارب سے زائد کا نقصان
آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگومیں انکشاف کیا کہ امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث تاجر برادری کو گزشتہ تین روز میں پانچ ارب سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے۔ان کے مطابق عام طور پر دیگر مہینوں کے مقابلے میں رمضان المبارک میں چالیس فیصد زائد روبار ہوتا ہے تاہم اس بار شہر میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کے باعث تمام سیاسی سرگرمیاں مفلوج ہیں۔ شہر میں میں تین ارب سے زاہد یومیہ تجارت ہوتی ہے جس میں80 فیصد کمی آچکی ہے ۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بوری بند لاشیں ملنے، فائرنگ میں معصوم لوگوں کے مارے جانے اور بموں سے حملوں کی خبریں سن کر ہی لوگ گھروں تک محدود ہوجاتے ہیں اور انجانے خوف کے باعث بازاروں کا رخ ہی نہیں کرتے۔ ایسے میں کاروباری سرگرمیاں مفلوج ہوکررہ گئی ہیں۔ امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا نتیجہ یہ ہے کہ تین سالوں میں پندرہ سے بیس ہزاربڑے تاجر کراچی سے دیگر شہروں کو منتقل ہوگئے ہیں ۔ اور جو لوگ رہ گئے ہیں ان کی اکثریت ذہنی طور پر شہر چھوڑنے کے لئے آمادہ ہے ۔
بھتہ خوری کا جان لیوا عذاب
عتیق میر نے وائس آف امریکہ سے تبادلہ خیال کے دوران بھتہ خوری کو تاجروں کا جان لیوا عذاب قراردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تاجروں سے بھتہ طلب کرنے سے پہلے جرائم پیشہ عناصر باقاعدہ پلاننگ کرتے اور تاجروں کی سرگرمیوں کوا چھی طرح مانیٹر کرتے ہیں۔ پھر کاروبارکی نوعیت اور اس میں منافع کی شرح کو مد نظر رکھتے ہوئے بھتہ طلب کرتے ہیں ۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بھتہ خور تا جروں اور ان کے اہلخانہ کو جب چاہتے نشانہ بنا لیتے ہیں ۔بدترین صورتحال یہ ہے کہ جب بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ کیا جاتا ہے تو وہ واضح طور پران کے خلاف کارروائی کرنے سے منع کر دیتے ہیں۔
عتیق میر کا کہنا تھا کہ پہلے سمجھا جاتا تھا کہ بھتہ خوروں کی پشت پناہی سیاسی جماعتیں کرتی ہیں تاہم اب ایسا نہیں ہے ، ہر وہ شخص جو جرائم پیشہ ہے وہ اس کام میں آ گیا ہے۔شہر میں بھتہ مافیا اور امن و امان کی صورتحال نے روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں کو بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا ہے کیونکہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں بچا ۔
سیاسی حلقوں کے مطالبات
تجارتی و صنعتی حلقوں کے ساتھ ساتھ سیاسی حلقوں کی جانب سے بھی کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ جمعہ کو سنی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین اور قومی اسمبلی کے رکن صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم نے کراچی کی المناک صورتحال پر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو تفصیلی خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں جاری خونریزی خطرے کی حدوں کو چھونے لگی ہے۔ اس لیے اب ضروری ہو گیا ہے کہ کراچی کو ایک ماہ کے لیے فوج کے حوالے کر دیا جائے ۔خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فوج تمام سیاسی قیادت کی مشترکہ نگرانی میں آپریشن کے ذریعے کراچی کو قانون شکن عناصر اور ناجائز اسلحہ سے پاک کرے۔