رسائی کے لنکس

کیا یوکرین میں لڑائی کے لیے پاکستان سے بھرتیاں ممکن ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

یوکرین نے روس کے خلاف مزاحمت میں حصہ لینے کے لیے پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک کے رضا کاروں کو یوکرین آنے کی پیشکش کی ہے البتہ رضاکاروں کی بھرتی حکومت کی اجازت اور عسکری تجربے سے مشروط ہے۔

یوکرینی صدر ولودیمیر زلینسکی نے جنگ میں یوکرین کی فوج کی معاونت کے لیے غیر ملکی رضا کاروں کو یوکرین آنے کی دعوت دی تھی جس کے بعد رواں ماہ کے اوائل میں رضاکاروں کی بھرتی کے لیے باقاعدہ ایک ویب سائٹ 'فائٹ فار یوکرین'بھی بنائی گئی جہاں پاکستان سمیت 69 ممالک کے نام موجود ہیں۔

ویب سائٹ پر ان 69 ممالک میں موجود یوکرین کے سفارت خانوں کے رابطہ نمبر اور ای میل ایڈریسز دیے گئے ہیں۔ ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق غیر ملکیوں کے لیے ضروری ہے کہ اُن کے پاس عسکری تربیت یا فوج میں ملازمت کی سند ہو جب کہ ان کے سفر کے لیے دستاویزات بھی مکمل ہوں۔

پاکستان سے رضا کاروں کی شمولیت کا امکان؟

پاکستان بھی اُن ممالک میں شامل جہاں سے رضا کاروں کو یوکرین میں لڑنے کی دعوت دی گئی ہے۔

وائس آف امریکہ کی ڈیوا سروس کا یوکرینی سفارت خانے سے خط و کتابت کا عکس
وائس آف امریکہ کی ڈیوا سروس کا یوکرینی سفارت خانے سے خط و کتابت کا عکس

وائس آف امریکہ نے اس سلسلے میں اسلام آباد میں موجود یوکرین کے سفارت خانے سے رابطہ کیا کہ پاکستان کے شہری لڑائی میں رضا کار کے طور پر کیسے بھرتی ہو سکتے ہیں؟ جس پر سفارت خانے کی کلچر اتاشی اولینا بورڈلوسکا نے تحریری جواب میں تصدیق کی کہ روس کے خلاف لڑنے کے دنیا بھر سے رضاکاروں سے درخواستیں طلب کی گئی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں کئی درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ البتہ درخواستوں کی تعداد کے بارے میں پوچھے گئے سوال میں اولینا بورڈلوسکا نے کہا کہ یوکرین کے دفاعی اتاشی ہی اس بارے میں جواب دے سکتے ہیں۔

تاہم یوکرین کے سفارت خانے نے خدشہ ظاہر کیا کہ پاکستان سے رضاکاروں کا یوکرین جانا خاصا دشوار ہے کیوں کہ ان کے لیے تمام تقاضے پورے کرنا مشکل ہے۔یوکرین جانے کے لیے شینگن ویزا، عسکری تربیت یافتہ ہونا اور حکومت کی اجازت لازمی ہے ۔

دوسری جانب حکومتِ پاکستان نے یوکرین میں روس کے خلاف لڑائی میں رضاکاروں کی شمولیت کے لیے باقاعدہ حکومت کی اجازت اور بھرتی کے امکان کو یکسر مسترد کیا ہے۔

وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اسلام آباد نے یوکرین تنازعے میں لڑنے کے لیے جانے کی کسی کو کوئی اجازت نہیں دی اور نہ ہی ایسی اجازت دی جا سکتی ہے۔

روس کی یوکرین کے خلاف جارحیت میں پاکستان نے اب تک محتاط رویہ اختیار کیا ہوا ہے اور اقوامِ متحدہ کے خصوصی اجلاس میں بھی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ روس اور یوکرین کے تنازعے کو ختم کرنے اور امن کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔

پاکستان میں یوکرین کے سفارتِ خانے کی ویب سائٹ چند روز قبل بند تھی البتہ اس خبر کی اشاعت کے وقت ویب سائٹ فعال ہو چکی ہے۔

یوکرین کے سفارت خانے نے پہلے پاکستان میں ویب سائٹ کی بندش پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا جب کہ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کا کہنا تھا کہ ویب سائٹ کو بند کرنے کے حوالے سے کوئی احکامات جاری نہیں ہوئے۔

بعد ازاں سفارت خانے نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ویب سائٹ 22 فروری سے بند تھی۔ اس کے بند ہونے کو رضاکاروں کی بھرتی کی پیشکش سے منسلک کرنا بے بنیاد ہے ۔

رضاکاروں کی بھرتی پر بین الاقوامی قوانین کیا کہتے ہیں؟

یوکرین میں لڑائی کے لیے منتخب ہونے والے رضاکاروں کو عارضی سفری دستاویزات جاری کی جائیں گی اور دستیاب معلومات کے مطابق متعلقہ شخص کے یوکرین پہنچنے پر اُس سے معاہدہ کیا جائے گا۔ یوکرین کی طرف سے ان رضاکاروں کو مستقبل میں یوکرین کی شہریت سمیت دیگر مراعات دینے کا بھی کہا جا رہا ہے۔

اقوامِ متحدہ کا مرسنری کنونشن 2001 کسی بھی ملک میں کسی غیرملکی شخص کو اجرت پر بطور فوجی بھرتی کرنے، تربیت دینے اور مالی فائدہ پہنچانے کی ممانعت کرتا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رہنما اور سینئر وکیل حنا جیلانی نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر اجرت پر یا کرائے کی فوج کے حوالے سے قوانین موجود ہیں البتہ رضاکاروں کے حوالے سے ایسی کوئی قدغن نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سمیت دنیا کا کوئی ملک اس بارے میں کوئی اجازت نہیں دے رہا البتہ انفرادی طور پر اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو اس بارے میں قوانین موجود نہیں لیکن اس جنگ میں رضاکاروں کو جانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

نوٹ: قبل ازیں یہ خبر 10 مارچ کوشائع کی گئی تھی جس میں یہ تاثر ابھر رہا تھا کہ پاکستان میں یوکرین کا سفارت خانہ رضا کار بھرتی کر رہا ہے جو درست نہیں ہے ۔ اب اس خبر میں تبدیلیاں کرکے اسے شائع کیا گیاہے۔

XS
SM
MD
LG