اسلام آباد —
پاکستان نے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں دیرپا امن کے قیام اور استحکام کے لیے مثبت کردار ادا کرنے کے عزم پر قائم ہے اور اسی سلسلے میں حال ہی میں وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے کابل کا دورہ بھی کیا۔
دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چوہدری نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ افغانستان میں قیام امن کی خاطر ہی پاکستان نے قطر میں طالبان کا سیاسی دفتر کھولے جانے کی حمایت کی تھی۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کا یہ موقف رہا ہے اور افغانستان کے تمام فریقوں کی شمولیت ہی سے وہاں امن کا قیام ممکن ہے۔
اعزاز احمد چوہدری نے کہا کہ گزشتہ ہفتے سرتاج عزیز نے کابل میں صدر حامد کرزئی سے ملاقات کر کے اُنھیں دورہ پاکستان کی دعوت دی تھی اور اب دونوں ملک افغان صدر کے دورے سے متعلق قابل عمل تاریخوں کا تعین کر رہے ہیں۔
’’سرتاج عزیز یہ پیغام لے کر گئے تھے کہ پاکستان اور افغانستان کو بشمول دیگر فریقوں کے آپس میں بہت گہرا تعاون کرنا چاہیئے۔ دہشت گردی کا جو خطرہ ہے وہ صرف افغانستان اور پاکستان کے لیے نہیں ہے بلکہ پورے خطے کے لیے ہے (اس سے نمٹنا صرف) اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب دونوں ملک آپس میں کسی طرح کی بدگمانی پیدا نا ہونے دیں۔‘‘
دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف یہ کہہ چکے ہیں پاکستان اپنے پڑوسی ممالک اور عالمی طاقتوں کے ساتھ قریبی سفارتت تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔
اُنھوں نے پڑوسی ملک بھارت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان انسداد دہشت گردی سمیت دیگر اہم مسائل پر بھارت سے قریبی تعاون کا خواہاں ہے۔
’’(دہشت گردی) ایسا موضوع ہے، جس پر ہم چاہتے ہیں پاکستان اور بھارت آپس میں تعاون کریں۔ ہماری توقع ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان جامع امن مذاکرات کا سلسلہ بھی دوبارہ شروع ہو گا اور انسداد دہشت گردی کے لیے تعاون اُن مذاکرات کا بھی ایک حصہ ہے۔‘‘
گزشتہ ہفتے وزیراعظم نواز شریف نے وزارت خارجہ کا دورہ کیا تھا اور جہاں اُنھوں نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان افغانستان میں کسی ایک گروہ کا حامی نہیں ہے اور وہ پڑوسی ملک میں دیرپا امن کے قیام کے لیے ہر ممکن تعاون جاری رکھے گا۔
جب کہ نواز شریف وزارت عظمٰی کا منصب سنبھالنے کے بعد متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں اُن کی حکومت پڑوسی ملک بھارت کے تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز کرنا چاہتی ہے اور اس سلسلے میں غیر رسمی سفارت کاری یا بیک چینل ڈپلومیسی کا عمل بھی بحال ہو چکا ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چوہدری نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ افغانستان میں قیام امن کی خاطر ہی پاکستان نے قطر میں طالبان کا سیاسی دفتر کھولے جانے کی حمایت کی تھی۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کا یہ موقف رہا ہے اور افغانستان کے تمام فریقوں کی شمولیت ہی سے وہاں امن کا قیام ممکن ہے۔
اعزاز احمد چوہدری نے کہا کہ گزشتہ ہفتے سرتاج عزیز نے کابل میں صدر حامد کرزئی سے ملاقات کر کے اُنھیں دورہ پاکستان کی دعوت دی تھی اور اب دونوں ملک افغان صدر کے دورے سے متعلق قابل عمل تاریخوں کا تعین کر رہے ہیں۔
’’سرتاج عزیز یہ پیغام لے کر گئے تھے کہ پاکستان اور افغانستان کو بشمول دیگر فریقوں کے آپس میں بہت گہرا تعاون کرنا چاہیئے۔ دہشت گردی کا جو خطرہ ہے وہ صرف افغانستان اور پاکستان کے لیے نہیں ہے بلکہ پورے خطے کے لیے ہے (اس سے نمٹنا صرف) اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب دونوں ملک آپس میں کسی طرح کی بدگمانی پیدا نا ہونے دیں۔‘‘
دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف یہ کہہ چکے ہیں پاکستان اپنے پڑوسی ممالک اور عالمی طاقتوں کے ساتھ قریبی سفارتت تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔
اُنھوں نے پڑوسی ملک بھارت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان انسداد دہشت گردی سمیت دیگر اہم مسائل پر بھارت سے قریبی تعاون کا خواہاں ہے۔
’’(دہشت گردی) ایسا موضوع ہے، جس پر ہم چاہتے ہیں پاکستان اور بھارت آپس میں تعاون کریں۔ ہماری توقع ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان جامع امن مذاکرات کا سلسلہ بھی دوبارہ شروع ہو گا اور انسداد دہشت گردی کے لیے تعاون اُن مذاکرات کا بھی ایک حصہ ہے۔‘‘
گزشتہ ہفتے وزیراعظم نواز شریف نے وزارت خارجہ کا دورہ کیا تھا اور جہاں اُنھوں نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان افغانستان میں کسی ایک گروہ کا حامی نہیں ہے اور وہ پڑوسی ملک میں دیرپا امن کے قیام کے لیے ہر ممکن تعاون جاری رکھے گا۔
جب کہ نواز شریف وزارت عظمٰی کا منصب سنبھالنے کے بعد متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں اُن کی حکومت پڑوسی ملک بھارت کے تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز کرنا چاہتی ہے اور اس سلسلے میں غیر رسمی سفارت کاری یا بیک چینل ڈپلومیسی کا عمل بھی بحال ہو چکا ہے۔