افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے ملک کے مشرقی صوبے میں ہونے والے ایک ایک مشترکہ امریکی فوجی حملے پر سخت تنقید کی ہے جس میں ان کے بقول سات بچوں سمیت آٹھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
ایک بیان میں مسٹر کرزئی امریکہ کے صدر براک اوباما کو شہریوں کے قریب امریکی فوجیوں کی کارروائیوں کو محدود کرنے کے وعدوں کی پاسداری نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
امریکہ کی زیرقیادت افغانستان میں تعینات اتحادی افواج نے ایک بیان میں اس واقعے کی تصدیق کی ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ صوبہ پروان میں ہونے والی اس کارروائی کی منصوبہ بندی افغان اسپیشل فورسز نے کی تھی۔
بیان کے مطابق شدت پسندوں نے مشترکہ فورسز پر فائرنگ کی جس سے لڑائی اس حد تک بڑھ گئی کہ اس میں فضائی کارروائی کرنا پڑی۔
ہلاکتوں کے بارے میں ایساف کے بیان میں کہا گیا کہ فائرنگ کے تبادلے میں دو شہری ہلاک ہوئے جب کہ ایک اتحادی فوجی اور دس شدت پسند مارے گئے۔
کابل حکومت اور واشنگٹن کے درمیان حالیہ مہینوں میں تنائو میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ افغانستان اور امریکہ کے درمیان سکیورٹی معاہدے پر صدر کرزئی کا مسلسل انکار ہے۔
اس معاہدے کے تحت دسمبر 2014ء کے بعد غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد امریکی فوجیوں کی افغانستان میں موجودگی کا تعین کیا جانا ہے۔
گزشتہ نومبر میں تیار کیے گئے معاہدے کے مسودے کے مطابق افغانستان میں تقریباً 15 ہزار امریکی فوجی دس سال تک ملک میں رہ سکیں گے۔
کرزئی یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اس معاہدے پر اس وقت تک دستخط نہیں کریں گے جب کہ واشنگٹن شہری ہلاکتوں کا باعث بننے والی فوجی و فضائی کارروائیاں روکنے کا عہد نہیں کرتا۔
کرزئی کے ناقدین متنبہ کر چکے ہیں کہ ان کے انکار سے رواں سال تمام امریکی افواج کا انخلا ہوجائے گا جب کہ متعدد مغربی مبصرین کا ماننا ہے کہ اتحادی افواج کی غیر موجودگی میں کابل حکومت تیزی سے ختم ہوسکتی ہے۔
ایک بیان میں مسٹر کرزئی امریکہ کے صدر براک اوباما کو شہریوں کے قریب امریکی فوجیوں کی کارروائیوں کو محدود کرنے کے وعدوں کی پاسداری نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
امریکہ کی زیرقیادت افغانستان میں تعینات اتحادی افواج نے ایک بیان میں اس واقعے کی تصدیق کی ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ صوبہ پروان میں ہونے والی اس کارروائی کی منصوبہ بندی افغان اسپیشل فورسز نے کی تھی۔
بیان کے مطابق شدت پسندوں نے مشترکہ فورسز پر فائرنگ کی جس سے لڑائی اس حد تک بڑھ گئی کہ اس میں فضائی کارروائی کرنا پڑی۔
ہلاکتوں کے بارے میں ایساف کے بیان میں کہا گیا کہ فائرنگ کے تبادلے میں دو شہری ہلاک ہوئے جب کہ ایک اتحادی فوجی اور دس شدت پسند مارے گئے۔
کابل حکومت اور واشنگٹن کے درمیان حالیہ مہینوں میں تنائو میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ افغانستان اور امریکہ کے درمیان سکیورٹی معاہدے پر صدر کرزئی کا مسلسل انکار ہے۔
اس معاہدے کے تحت دسمبر 2014ء کے بعد غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد امریکی فوجیوں کی افغانستان میں موجودگی کا تعین کیا جانا ہے۔
گزشتہ نومبر میں تیار کیے گئے معاہدے کے مسودے کے مطابق افغانستان میں تقریباً 15 ہزار امریکی فوجی دس سال تک ملک میں رہ سکیں گے۔
کرزئی یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اس معاہدے پر اس وقت تک دستخط نہیں کریں گے جب کہ واشنگٹن شہری ہلاکتوں کا باعث بننے والی فوجی و فضائی کارروائیاں روکنے کا عہد نہیں کرتا۔
کرزئی کے ناقدین متنبہ کر چکے ہیں کہ ان کے انکار سے رواں سال تمام امریکی افواج کا انخلا ہوجائے گا جب کہ متعدد مغربی مبصرین کا ماننا ہے کہ اتحادی افواج کی غیر موجودگی میں کابل حکومت تیزی سے ختم ہوسکتی ہے۔