واشنگٹن —
ایک سرکردہ امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ افغانستان پر جاری کی جانے والی ایک خفیہ رپورٹ میں پیشگوئی کی گئی ہے کہ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی طرف حاصل کردہ کامیابیاں 2017ء تک اپنا اثر کھو دیں گی، جس کا باعث یہ ہوگا کہ بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد رفتہ رفتہ طالبان اور دیگر گروپ طاقتور ہو جائیں گے۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ نے کہا ہے کہ قومی انٹیلی جنس کے ایک نئے تخمینے کے مطابق، اگر امریکہ اور افغانستان کی طرف سے 2014ء کے بعد ملک میں بین الاقوامی فوجی دستہ رکھنے کے بارے میں سلامتی کے معاہدے پر دستخط نہ کیے گئے، تو افغانستان میں فوری طور پر افراتفری پیدا ہونا بعید نہیں۔
انٹیلی جنس تخمینے کی بنیاد پر، اخبار نے حالات سے مانوس ایک امریکی اہل کار کے حوالے سے بتایا ہے کہ فوجی موجودگی اور مالی اعانت جاری رکھے بغیر، لگتا ہے کہ حالات بہت جلد بگڑ جائیں گے۔
تاہم، اِس خبر میں کہا گیا ہے کہ ایک اور اہل کار کی رائے میں یہ رپورٹ ’بہت ہی ناامیدی‘ پر مبنی دکھائی دیتی ہے جس میں افغانستان کی سکیورٹی افواج کی طرف سے حاصل کردہ پیش رفت کو مدِ نظر نہیں رکھا گیا۔
ایک امریکی اہل کار ،جو یہ کہتے ہیں کہ رپورٹ بہت ہی منفی ہے، ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو بتایا کہ افغانستان کے ممکنہ حالات کیا ہوں گے، بقول اُن کے، اس کا زیادہ تر دارومدار سیاسی طاقت کے جوڑ توڑ، علاقے اور اس قسم کی باتوں سے ہے، جب کہ طالبان کی طاقت میں اضافہ ایک ناگزیر امر ہوگا۔
امریکہ نے افغان حکومت سے 2014ء کے بعد ملک میں فوجیں رکھنے کی اجازت طلب کی ہے، جس کا کام انسداد دہشت گردی اور کارروائیوں کے سے متعلق تربیت فراہم کرنا شامل ہوگا۔
افغان صدر حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ یہ سمجھوتا جس کی منظوری گذشتہ ماہ ’لویہ جرگہ‘ کے نام سے موسوم عمائدین کے ایک گروپ نےدی تھی، اُس پر تب ہی دستخط ہوں گے جب شہریوں کے گھروں پر چھاپے بند کیے جائیں گے اور امریکہ کھل کر افغان حکومت کے طالبان سے مفاہمتی عمل کی حمایت کرے گا۔
اس سمجھوتے پر دستخط افغانستان کو آئندہ برسوں میں اربوں ڈالر کی مغربی امداد کی ترسیل سے مشروط ہے۔
امریکی عہدے داروں نے کہا ہے کہ اگر 8000تک امریکی فوجی تعینات رکھنے کا سمجھوتا طے نہیں ہوتا، تو طالبان باغیوں کی ملک میں واپسی کا امکان ہوگا، اور ملک میں القاعدہ کو محفوظ ٹھکانے پھر میسر آجائیں گے۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ نے کہا ہے کہ قومی انٹیلی جنس کے ایک نئے تخمینے کے مطابق، اگر امریکہ اور افغانستان کی طرف سے 2014ء کے بعد ملک میں بین الاقوامی فوجی دستہ رکھنے کے بارے میں سلامتی کے معاہدے پر دستخط نہ کیے گئے، تو افغانستان میں فوری طور پر افراتفری پیدا ہونا بعید نہیں۔
انٹیلی جنس تخمینے کی بنیاد پر، اخبار نے حالات سے مانوس ایک امریکی اہل کار کے حوالے سے بتایا ہے کہ فوجی موجودگی اور مالی اعانت جاری رکھے بغیر، لگتا ہے کہ حالات بہت جلد بگڑ جائیں گے۔
تاہم، اِس خبر میں کہا گیا ہے کہ ایک اور اہل کار کی رائے میں یہ رپورٹ ’بہت ہی ناامیدی‘ پر مبنی دکھائی دیتی ہے جس میں افغانستان کی سکیورٹی افواج کی طرف سے حاصل کردہ پیش رفت کو مدِ نظر نہیں رکھا گیا۔
ایک امریکی اہل کار ،جو یہ کہتے ہیں کہ رپورٹ بہت ہی منفی ہے، ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو بتایا کہ افغانستان کے ممکنہ حالات کیا ہوں گے، بقول اُن کے، اس کا زیادہ تر دارومدار سیاسی طاقت کے جوڑ توڑ، علاقے اور اس قسم کی باتوں سے ہے، جب کہ طالبان کی طاقت میں اضافہ ایک ناگزیر امر ہوگا۔
امریکہ نے افغان حکومت سے 2014ء کے بعد ملک میں فوجیں رکھنے کی اجازت طلب کی ہے، جس کا کام انسداد دہشت گردی اور کارروائیوں کے سے متعلق تربیت فراہم کرنا شامل ہوگا۔
افغان صدر حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ یہ سمجھوتا جس کی منظوری گذشتہ ماہ ’لویہ جرگہ‘ کے نام سے موسوم عمائدین کے ایک گروپ نےدی تھی، اُس پر تب ہی دستخط ہوں گے جب شہریوں کے گھروں پر چھاپے بند کیے جائیں گے اور امریکہ کھل کر افغان حکومت کے طالبان سے مفاہمتی عمل کی حمایت کرے گا۔
اس سمجھوتے پر دستخط افغانستان کو آئندہ برسوں میں اربوں ڈالر کی مغربی امداد کی ترسیل سے مشروط ہے۔
امریکی عہدے داروں نے کہا ہے کہ اگر 8000تک امریکی فوجی تعینات رکھنے کا سمجھوتا طے نہیں ہوتا، تو طالبان باغیوں کی ملک میں واپسی کا امکان ہوگا، اور ملک میں القاعدہ کو محفوظ ٹھکانے پھر میسر آجائیں گے۔