اسلام آباد سے کشمیر کی طرف چلتے جائیں تو کوہالہ پُل پار کرتے ہی مظفر آباد کی وادی نظر آنے لگتی ہے۔ یہاں پہنچنے پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے اس حصے کا دارالحکومت معمول سے ہٹ کر دکھائی دیا۔
'وائس آف امریکہ' کی ٹیم یہاں اُس وقت پہنچی جب بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں اس کی آئینی حیثیت بدل چکی تھی۔
ہوٹل پہنچنے تک جو بھی ملا اس کی آواز میں پریشانی اور بے زاری تھی۔ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے گئے اس پریشانی کی گونج بڑھتی چلی گئی۔
ہمارے نامہ نگار روشن مغل نے ہم سے ڈسٹرکٹ ہٹیاں بالا کے قصبے چکوٹھی میں ملنے کا وعدہ کیا جو مظفر آباد سے 56 یا 57 کلو میٹر دور ہے۔ راستے میں چھوٹے بازار آئے جو کھلے ہوئے تو تھے مگر اُن میں ویرانی چھائی ہوئی تھی۔
معمول سے کم ٹریفک کے باعث ہم جلد ہی روشن مغل کے پاس چکوٹھی پہنچ گئے۔ یہاں واقع ہر گھر سے بھارتی مورچے نظر آرہے تھے۔ اگرچہ یہ منظر یہاں کے رہنے والوں کے لیے روز کا معمول تھا لیکن ہم جس سے بھی ملے وہ ایک انجانے خوف میں مبتلا نظر آیا۔
دریائے جہلم کے ساتھ ساتھ واقع مکانات میں ایک گھر سے دوسرے گھر تک جانے کے لیے پہاڑی راستے اترنا اور چڑھنا پڑتے ہیں۔ زیادہ تر افراد نے انجانی صورت حال اور ان دیکھے خدشات کے سبب بنکرز بنا لیے تھے۔
اسی دوران ایک ریٹائرڈ ڈاکٹر سے ملاقات ہوئی تو اُن کا اصرار تھا کہ قہوہ ضرور پیئیں۔ ایک لمبی مسافت تہہ کرنے کے بعد انکار ممکن بھی نا تھا لیکن ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ جس ٹیبل پر چائے سرو کی جائے گی وہاں گردن گھماتے ہی پاکستان اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کو تقسیم کرنے والی سرحد (ایل او سی) دکھائی دے گی۔
اسی اثنا میں ڈاکٹر صاحب کے محلے والے جو میڈیا سے بات کرنا چاہتے تھے، ہمیں ملنے اسی صحن میں آتے رہے۔ وہ بار بار یہی کہتے کہ ایل او سی کے اُس پار ان کے اپنے ہی آباد ہیں لیکن افسوس ہے کہ وہ کسی بھی مشکل میں اُن کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔
بزرگوں کے لہجے میں تھکاوٹ اور مایوسی تھی جبکہ جوانوں کے لہجوں میں غصہ دکھائی دے رہا تھا۔ محمود بھی ایسے ہی جوانوں میں شامل تھے۔
وہ ہمیں اپنا بنکر دکھانے لے گئے۔ سیمنٹ کا تازہ لیپ اور اس پر کچھ فولادی چادریں۔ محمود جانتے تھے کہ بنکر کسی بھی ممکنہ حملے کا توڑ نہیں ہوسکتا بس یہ ایک دلاسے کے سوا کچھ نہیں تھا۔
محمود نے بتایا کہ بہت سے رہائشی علاقہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ محمود کی طرح ہزاروں افراد نہیں جانتے کہ کب کیا ہوجائے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر کشمیری کے چہرے پر لکھا ہے۔
پاکستان ان کی کس حد تک مدد کرسکتا ہے؟ اس کا جواب ہم نہیں دے سکتے تھے لیکن چونکہ ہم اسلام آباد سے آئے تھے اس لیے وہ ہم سے ایسے سوال بار بار کرتے اور جواب کا انتظار کیے بغیر اکثر اِدھر اُدھر دیکھنے لگتے۔
حالات کے پیش نظر اسکولوں اور کالجوں کی چھٹیاں بڑھا دی گئی تھیں اس لیے بچے گھروں کے ارد گرد کھیلتے نظر آئے۔
ان بنکروں میں رہنا کیسا ہوتا ہے؟ جب میں نے چکوٹھی کی رہنے والی سولہ سالہ کومل سے پوچھا تو وہ دھیمے لہجے میں کہنے لگی۔ 'ایسا لگتا ہے کہ دم گھٹ جائے گا لیکن اگر جان بچانی ہو تو کیا کیا جائے؟
اس سے پہلے کے یہاں کے لوگوں سے مزید بات کر پاتے ہمیں سفید کپڑوں میں ملبوس ایک شخص نے سختی سے ٹوکا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ فلم بندی کرنے کی ہرگز اجازت نہیں۔
پھر اُس شخص نے سمجھانے اور دھمکانے کی کیفیت رکھنے والے لہجے میں ہمیں چکوٹھی سے جانے کو کہا اور ہمارے شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد واپس کر دیے۔
شام ہو رہی تھی اور انٹر نیٹ کی ان علاقوں میں محدود سہولت ہونے کے باعث ہمارے لیے ضروری تھا کہ ہم فوراً ہوٹل پہنچ جاتے اور اس دن کی خبریں فائل کرتے۔
اگلے دن وادی نیلم کے لمبے سفر پر جاتے ہوئے یہی سوچ ذہن پر حاوی رہی کہ کہیں ہمارا کیمرہ آج بھی بند نہ کرادیا جائے۔
چیک پوسٹوں سے گزرتے، اپنے کوائف بار بار بتاتے ہم دریائے نیلم کے ساتھ چلنا شروع ہوئے پتا لگا کہ ہمارے اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے درمیان صرف دریائے نیلم تھا۔
گہرا مگر کم پاٹ کا یہ دریا بل کھاتا سڑک کے ساتھ گھومتا رہا۔ ہمارے کشمیری ساتھی بار بار کہتے یہ دیکھیں اوپر۔۔۔ اور۔۔۔اوپر۔۔۔ بھارت کے مورچے ہیں اور ان کے جو نیچے مکان ہیں وہ؟
جب یہ پوچھا تو جواب آیا کہ یہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا حصہ ہے۔ یہ کیسی زندگی تھی؟ اور یہ کتنا مشکل ہے، یہ صرف وہی بتا سکتے ہیں جو اس تکلیف سے گزر رہے ہوں۔
بھارت کے زیرِ انتظام علاقے بجلی کے کھمبوں سے پہچانے جاتے ہیں جو لمبے اور پتلے ہوتے ہیں۔
ابھی کھمبوں کی پہچان ہونے بھی نہ پائی تھی کہ ایک بچے نے بتایا کہ آگے اٹھ مقام پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے۔ ہم پھر بھی چلتے رہے اور جب تک ہم ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر اسپتال اٹھ مقام پہنچے فائرنگ کے کوئی آثار نہیں تھے۔ البتہ اسپتال کے ایم ایس نے بتایا کہ 30 جولائی کو شیلنگ کا تبادلہ ہوا تھا جس کی وجہ سے اسپتال کو کافی نقصان پہنچا تھا۔
اٹھ مقام کے بازار میں سیاح دور دور تک نہیں تھے البتہ کبھی کوئی آتا جاتا شخص ہماری ٹیم کو شکی نگاہوں سے دیکھ کر آگے بڑھ جاتا اور کچھ کھڑے ہو جاتے جبکہ چند ایک فون پر اچانک مصروف نظر آنے لگتے۔
کشمیری شالیں دکانوں کے شو کیسز سے منہ چڑاتی نظر آئیں کیونکہ گاہک نام کو بھی نہیں تھے۔ دکاندار پرانا مال لیے بیٹھے تھے، نیا منگوانا تو درکنار تھا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت پر پابندی کے بعد مسائل اور بڑھ گئے تھے۔ دکاندار چاہتے تو یہی تھے کہ تجارتی روابط پھر سے کھلیں مگر ساتھ ہی ایل او سی پار کشمیر کے حالات پر نالاں بھی تھے۔
زیادہ تر کا خیال تھا کہ بین الاقوامی قوتیں اس بار اس مسئلے کا کوئی حل نکال ہی لیں گی مگر پاکستان کی ریاست سے ان کے شکوے زیادہ بھی تھے اور پرانے بھی۔ اگرچہ کیمرہ سامنے لگا دیکھ کر سبھی خاموش ہو جاتے پر دبی دبی زبان میں کتنوں نے ہی کہا کہ وہ مایوس ہیں، انہیں اپنا مستقبل غیر یقینی نظر آتا ہے۔
یہاں بھی وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ تمام کام ہمیں فون کیمرے سے کرنا پڑا کیونکہ کیمرہ نکالنا تو آ بیل مجھے مار کے مترادف ہوتا۔
وادی نیلم سے واپسی پر ایک بار پھر ہمیں تنبیہ کی گئی کہ 'جو کچھ ریکارڈ کیا ہے ڈیلیٹ کر دیا جائے'۔ یہ فون کال ہمارے پشتو سروس کے ساتھی پیر ولایت کو موصول ہوئی جو ہمارے ہی ساتھ اس اسائنمنٹ پر کشمیر آئے تھے۔
اگلے دن ہمارے ایک پرانے ساتھی اور صحافی میر صاحب نے بلال احمد نامی شخص سے ملاقات کرائی۔ ان کا اپنا کاروبار تھا۔ اور نہ بھی بتاتے تو بھی اپنے چہرے مہرے سے کشمیری ہی لگتے تھے۔
انہوں نے ہم سے بات کرنا شروع کی مگر آواز نے ساتھ نہیں دیا۔ وہ بیس سال پہلے سری نگر سے آئے تھے مگر اُن کا خاندان سری نگر میں ہی تھا۔
کہنے لگے کہ کئی روز سے سویا نہیں۔ ٹھیک سے کھایا نہیں۔ بس ہر روز میسج کرتا رہتا ہوں، کال کرتا ہوں مگر کوئی جواب نہیں آتا۔
کیمرہ بند ہوا تو کہا کہ ہم کشمیریوں نے ایک بے وفا سے محبت کی تھی آج پچھتا رہے ہیں۔ میرے چہرے کے بدلتے تاثرات دیکھ کر کہنے لگے، لگتا ہے آپ کو میری بات اچھی نہیں لگی۔ پر یہی سچ ہے۔
میرے لیے اور ہماری ٹیم کے لیے قابل غور بات یہ تھی کہ کشمیری مایوس بھی ہیں، دل گیر بھی اور تمام صورت حال سے بے زار بھی۔ اکثر کا خیال تھا کہ بھارت نے زیادتی کی ہے مگر پاکستانی حکومتیں بھی ہمیں ہمارا بنیادی حق آزادی نہیں دلا سکیں۔
جاوید جیسے سینئر سرکاری افسر کو بھی یہی ڈر تھا کہ اب شاید دوسری طرف رہنے والی اپنی بہنوں سے کبھی نہ مل پائیں۔
کہنے لگے میں بارا مولا کا رہنے والا ہوں اور کئی سال پہلے یہاں آیا مگر باقی سب وہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا اکٹھے بیٹھنے کی باتیں تو خواب ہوئیں، اُنہیں تو قریبی رشتے داروں کے انتقال کی خبریں بھی نہیں مل رہیں۔ پھر سب خاموش ہو گئے اور مظفر آباد کی چلچلاتی دھوپ میں چاروں طرف پھیلے پہاڑی سلسلوں کو دیکھتے رہے
کاروباری افراد کی پریشانیاں اور خالی ہوٹل بتا رہے تھے کہ اس بار موسم سرما کشمیریوں پر معاشی طور پر بھاری گزرے گا اور اس کا اظہار شہری ہم سے بات چیت میں کرتے بھی رہے۔
کشمیر میں کام کے دوران یہی خیال آتا رہا کہ یہ خطہ کب تک دو حصوں میں اس طرح منقسم رہے گا کہ جہاں دریا کنارے کھڑے ایک انسان کی آواز با آسانی دوسرے کنارے تک جا سکتی ہے۔ گولی اور بارود بھی چھرے اور شیلز بھی لیکن اگر کوئی نہیں جاسکتا تو وہ ہے ایل او سی کے آر پار بسا کشمیری ہے۔