اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے مبصرین نے بھارتی حکومت سے کشمیر میں عائد پابندیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے جب کہ بھارت کی حزبِ اختلاف کی نو جماعتوں نے کشمیر کے سیاسی رہنماؤں کو رہا کرنے کی اپیل کی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے پانچ مبصرین نے سیکورٹی فورسز کی جانب سے گھروں میں چھاپوں اور نوجوانوں کو گرفتار کیے جانے کی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہیں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
انسانی حقوق کے دفتر برائے ہائی کمشنر سے جاری بیان میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ بھارتی انتظامیہ چھاپوں اور گرفتاریوں کے الزامات کی تحقیقات کرے اور اگر یہ درست پائے جائیں تو ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
ماہرین نے کشمیر کی موجودہ صورتِ حال کو پوری آبادی کو اجتماعی سزا دینے سے تعبیر کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں اظہارِ خیال کی آزادی، اطلاعات تک رسائی اور پرامن مظاہروں پر عائد پابندیوں کو ختم کیا جائے۔
اقوامِ متحدہ کے مبصرین کے مطابق حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ اور مواصلات کے دیگر ذرائع کو بند کرنا ضرورت اور تناسب کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہے۔
واضح رہے کہ جن پانچ مبصرین نے یہ بیان جاری کیا ہے وہ اظہارِ خیال کی آزادی کے تحفظ، انسانی حقوق، پرامن اجتماع اور ماورائے عدالت قتل جیسے شعبوں سے وابستہ ہیں۔
اقوامِ متحدہ میں بھارت کے نمائندے سید اکبرالدین نے کہا ہے کہ کشمیر کا معاملہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے جس میں کسی تیسرے کی مداخلت کی ضرورت نہیں۔
دوسری جانب بھارت کی حزبِ اختلاف کی نو جماعتوں نے نئی دہلی میں مظاہرہ کر کے کشمیر کے سیاسی رہنماؤں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
مظاہرے میں شریک سماج وادی پارٹی کے رہنما پروفیسر رام گوپال نے سوال کیا کہ کیا فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی دہشت گرد ہیں جو انہیں نظر بند کر دیا گیا ہے؟
حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے احتیاطاً گرفتاریاں اور پابندیاں عائد کی ہیں۔ بھارتی حکومت کے مطابق پابندیوں میں بتدریج نرمی کی جا رہی ہے۔