بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ایک اعلیٰ سرکاری افسر کی طرف سے دو انتظامی عہدیداروں اور پولیس حکام کو لکھے گئے ایک خط نے اس مسلم اکثریتی ریاست میں ایک نیا سیاسی ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔
جموں و کشمیر، جہاں 5 اگست 2019ء کے بعد براہِ راست بھارت کا انتظامی کنٹرول ہے، محکمہ حیوانات اور ماہی گیری کے ڈائرکٹر پلاننگ جی ایل شرما نے 15 جولائی کو جموں اور وادی کشمیر خطوں کے ڈویژنل کمشنروں یا انتظامی عہدیداروں اور پولیس سربراہوں کو ایک خط لکھ کر تاکید کی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ عید الاضحیٰ کے موقعے پر گائے، بچھڑوں، اونٹ اور دوسرے جانوروں کو غیر قانونی طور پر ذبح نہ کیا جائے۔
خط میں ان سے یہ درخواست بھی کی گئی کہ وہ جانوروں کی بہبود کے لئے قائم کئے گئے بورڈ کے وضع کردہ ضابطوں اور متعلقہ قوانین کی عید کے موقعے پر خلاف ورزی کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کریں۔ یہ بورڈ بھارت کی وزارتِ ماہی گیری، حیوانات پالن اور شیر خانی کے تحت آتا ہے ۔
خط میں کہا گیا ہے کہ "آپ سے درخواست کی جاتی ہے کہ گائے، بچھڑوں، اونٹ اور دوسرے جانوروں کو غیر قانونی طور پر ہلاک کرنے یا ان کی قربانی دینے کو روکنے کے لئے تمام امتناعی اقدامات اٹھائیں اور بقر عید کے موقعے پر جانوروں کی نقل و حمل کے دوران ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کاررروائی کریں"۔
ڈائریکٹر پلاننگ جی ایل شرما نے اپنے خط کی کاپیاں سری نگر اور جموں کی میونسپل کارپوریشنز اور جموں و کشمیر کے ہر ضلعے کے پولیس سربراہان کے علاوہ جانوروں کی بہبود کے لئے قائم کئے گئے وفاقی بورڈ کو بھی روانہ کی ہیں۔
اونٹ کی قربانی نہیں دی جا سکتی
انہوں نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ انہیں بورڈ کی جانب سے 25 جون کو لکھا گیا ایک پیغام ملا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عید الاضحیٰ کے موقعے پر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بڑی تعداد میں جانوروں کی قربانی دی جائے گی۔ لہٰذا، اینیمل ویلفئر قوانین، بالخصوص جانوروں کے ساتھ ظلم و زیادتی کو روکنے کے لئے نافذ ایکٹ،ان کی نقل و حمل سے متعلق ضابطوں، ذبح خانوں کے حوالے سے مقررہ قانون اور جانوروں کو ذبح کرنے کے بارے میں رائج میونسپل قوانین اور اشیائے خورد و نوش اور معیار کے بارے میں متعلقہ اتھارٹی کی طرف سے وقتاً فوقتاً جاری کی جانے والی ہدایات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ان ہدایات، ضابطوں اور قوانین کے تحت اونٹ کی قربانی نہیں دی جا سکتی۔
اسلام میں عید پر گائے کو قربان کرنا ضروری نہیں
بورڈ کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ اور مغربی بنگال اور بعض دوسری ریاستوں کے ہائی کورٹس کی طرف سے مختلف موقعوں پر اور مقدموں کے سلسلے میں دیے گیے فیصلوں میں یہ کہا گیا ہے کہ اسلام میں عید الاضحیٰ پر گائے کی قربانی دینا ضروری قرار نہیں دیا گیا۔
جی ایل شرما کے اس خط میں جانوروں کی بہبود سے متعلق قوانین بالخصوص ان کے ساتھ ہونے والے ظلم پر روک تھام کے لئے وضع کردہ ضابطوں کی خلاف ورزی کو روکنے پر زور دیا گیا ہے۔
کیا کشمیر میں مہاراجوں کی حکومت لوٹ آئی ہے؟
جمعے کو شرما کے اس خط کے منظرِ عام پر آنے کے ساتھ ہی کئی لوگوں نے سوشل میڈیا کا رخ کرکے بھارتی حکومت پر مسلمانوں کا قافیہ تنگ کرنے اور ان کی مذہبی رسوم پر مختلف بہانے بنا کر قدغین لگانے کا الزام عائد کر دیا۔ ایک شہری بشیر احمد بٹ کے بقول،کیا جموں و کشمیر پر مطلق العنان سکھ اور ڈوگرہ مہاراجوں کی حکمرانی لوٹ آئی ہے جو گائے اور بعض دوسرے جانور ذبح کرنے والوں کو اپنے کارندوں کے ذریعے تہہِ تیغ کرواتے یہاں تک کہ ان کے گھر بھی جلواتے تھے؟
فیصلہ ناقابل قبول قرار
مجلس علما کے بقول، اس طرح کے حکومتی فیصلے جموں و کشمیر کے عوام کیلئے ہرگز قابل قبول نہیں ہیں۔ سابق وزیرِ اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبد اللہ کی سربراہی میں ریاست کی قدیم ترین سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس نے بھی شرما کی طرف سے لکھے گئے خط کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے بھی اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ دوسرے مویشیوں بشمول ایسے جانوروں کو جنہوں نے دودھ دینا اور کام کرنا بند کردیا ہو، ذبح کرنے پر عوام کے مفاد میں مکمل پابندی عائد نہیں کی جاسکتی۔
پابندی عائد نہیں کی گئی ہے، عہدیدار کی وضاحت
جی ایل شرما نے صحافیوں کو بتایا کہ اُنہوں نے کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا، بلکہ صرف ایک خط لکھا ہے جس میں اینیمل ویلفئر بورڈ کی طرف سے انہیں موصولہ پیغام کی روشنی میں محض متعلقہ قوانین اور ضابطوں کی پاسداری کرنے کے لئے ضروری اقدامات اٹھانے کی بات کہی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے خط لکھنا معمول کا ایک انتظامی معاملہ ہے لیکن اس کی غلط تاویل کی گئی ہے۔
ان کے الفاظ میں، "خط لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ جانوروں کے ساتھ ہونے والے ظلم کو روکا جائے۔ مثال کے طور پر اگر کسی گاڑی میں ایک سو بھیڑوں کو لادنے کی گنجائش ہے لیکن اس میں دو سو بھیڑ لاد کر انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جاتا ہے اور اس دوران چند بھیڑ دم گھٹنے سے مرجاتی ہیں تو یہ ان کے ساتھ ظلم ہے جس کی قانون ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ نیز ہم چاہتے ہیں کہ عید پر جانور صاف ستھرے اور صحت مند طریقے پر ذبح کئے جائیں نہ کہ سڑکوں اور پبلک مقامات پر۔"
ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے روادار نہیں
حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی اور ہمخیال سیاسی جماعتوں اور گروپس کا استدلال ہے کہ متعلقہ قوانین اور جانوروں کےساتھ ہونے والے ظلم کو روکنے کے لئے وضع کردہ ضابطوں اور اصولوں کے تحت گائے، اس کے بچھڑوں اور بیل کو ذبح نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم، بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ گائے کو چونکہ ہندو ایک متبرک جانور مانتے ہیں اور اسے 'ماں' پکارتے ہیں اس لئے ایک ایسے معاشرے میں جہاں ہندو اور مسلمان اکٹھے رہتے ہیں گائے کو ذبح کرنے سے احتراماً اجتناب کیا جائے چاہے اس کے لئے کوئی قانون موجود ہو یا نہ ہو۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے 5 اگست 2019ء کو جموں و کشمیر کی نیم آئینی خود مختاری کو ختم کرنے اور متنازعہ ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے براہ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقے بنانے کے اقدام کے بعد ریاست کا اپنا تعزیراتی قانون رنبیر پینل کوڈ ختم ہوگیا ہے اور اس کی جگہ تعزیراتِ ہند یا انڈین پینل کوڈ نے لے لی ہے۔
تعزیراتِ ہند میں گاؤ کشی کے لیے کوئی سزا مقرر نہیں
بتایا جاتا ہے کہ انڈین پینل کوڈ میں گاؤ کشی یا مویشی کا کاروبار کرنے یا انہیں ذبح کرنے کے بارے میں کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ تاہم، قومی پالیسی کا تعین کرنے کے لیے آئینِ ہند کی دفعہ 48 کے تحت مقررہ کردہ اصولوں میں وفاق سے ریاستوں کی ایسے اقدامات اٹھانے کے لیے حوصلہ افزائی کرنے کی بات کہی گئی ہے جن کا مقصد مویشیوں کی نسل کو بڑھانا ہو ۔
بھارت میں اس وقت کیرالا، مغربی بنگال، آسام، اروناچل پردیش، میزورام، میگھالیا، ناگالینڈ اور تریپورہ کو چھوڑ کر تقریباً تمام ریاستوں اور وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں میں گاؤ کشی پر پابندی عائد ہے۔
پولیس سربراہ کا بیان
بھارت کے زیرِانتظام کشمیرکے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے چند ماہ پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ بڑا گوشت یا بیف حاصل کرنے کے لیے گائیں ذبح کرنے یا اس طرح کا کاروبار کرنے والوں اور مویشی اسمگلروں کو اب سخت گیر قانون پبلک سیفٹی ایکٹ یا پی ایس اے کے تحت نظر بند کیا جائے گا۔
جموں میں پولیس افسران کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے تمام ضلع پولیس سربراہان کو یہ ہدایت دی تھی کہ منشیات کا غیر قانونی کاروبار کرنے والوں کے ساتھ ساتھ مویشی اسمگلروں پر پی ایس اے لاگو کیا جائے۔
انہوں نے پولیس افسران سے یہ بھی کہا کہ ایسے افراد کی فوری طور پر نشاندہی کی جائے جو منشیات کا کاروبار کرتے ہیں یا مویشی اسمگلنگ کے عادی مجرم ہیں اور پھر اُن کے خلاف مقدمے درج کرکے ترجیحی بنیاد پر عدالتوں میں چارج شیٹ پیش کیے جائیں۔