نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے پیر کو ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس کے تحت سرکاری ملازمین پر سوشل میڈیا استعمال کرنے پر بعض پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ باالخصوص انہیں تاکید کی گئی ہے کہ وہ ذاتی سوشل میڈیا اکاونٹس کو کسی بھی سیاسی سرگرمی کیلئے استعمال میں نہ لائیں۔ اس سلسلے میں جنرل ایڈمنسٹریشن محکمے کے کمشنر سیکریٹری خورشید احمد نے جو حکم جاری کیا اُس میں درج سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق راہنما خطوط کے تحت دیگر باتوں کے علاوہ ایسی تحریروں اور پیغامات پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے جو حکمنامے کے بقول حکومت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوں یا اُس کیلئے تعصب یا معاندانہ رویے کی عکاسی کرتے ہوں۔
حکومت کے اس اقدام پر شورش زدہ ریاست میں شدید ردِ عمل ہوا ہے۔ جہاں حزبِ اختلاف کی بھارت نواز جماعتوں اور استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی تنظیموں نے اسے آمرانہ سوچ پر مبنی اقدام قرار دیا ہے وہیں خود تقریبا پانچ لاکھ سرکاری ملازمین کی ٹریڈ یونینوں نے اسے غیر جمہوری کہہ کر اسے فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے مقامی لیڈر محمد یوسف تاریگامی نے کہا کہ اگر سرکاری فرمان کو واپس نہیں لیا جاتا ہے تو اس سے ملازمین اور کارکنوں کی صفوں میں بے چینی پیدا ہوسکتی ہے۔
قوم پرست جموں کشمیر لیبریشن فرنٹ کے سربراہ محمد یاسین ملک نے کہا کہ حکومت کا قدم ہو بہ ہو ویسا ہی ہے جیسا شمالی کوریا کے آمر حکمران نے اُٹھایا تھا۔ اُنہوں نے الزام لگایا کہ "مکار سیاست دانوں نے جنہوں نے کبھی انسانی حقوق کی پامالیوں پر عوامی سطح پر بڑی چیخ و پکار کی تھی اور لوگوں کو دئے گئے زخموں پر مرہم لگانے اور خیالات کی جنگ کے لئے ماحول سازگار بنانے کے وعدے کئے تھے اب ریاست کو ایک پولیس اسٹیٹ میں بدل دیا ہے جہاں اختلاف رائے کی ہر آواز کو طاقت کے بل بوتے پر دبایا جارہا ہے"-
لیکن حکومت نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوشل میڈیا سے متعلق رہنما خطوط سرکاری ملازمین کیلئے ذاتی اور پیشہ وارانہ زندگی میں فرق پیدا کرنے کیلئے مرتب کئے گئے ہیں اور یہ کہ ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جب ملازمین نے سماجی میڈیا پر کام کے دباؤ پر کھل کر اظہارِ خیال کیا جس کی وجہ سے انتظامیہ کیلئے غیر ضروری مسائل پیدا ہوئے۔
حکومت کے ترجمانِ اعلیٰ اور وزیرِ تعمیرات سید نعیم اختر اندرابی نے کہا کہ سرکاری حکم محض ملازمین کو اُن ذمہ داریوں کا احساس دلاتا ہے جن کے وہ پابند ہیں۔