بھارتی حکام نے کشمیری عسکری تنظیم العمر مجاہدین کے بانی مشتاق احمد زرگر کا سرینگر میں واقع آبائی مکان ضبط کرلیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ بھارت کے وفاقی تفتیشی ادارے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی(این آئی اے) نے غیر قانونی سرگرمیوں کی انسداد سے متعلق قانون یو اے پی اے کے تحت یہ کارروائی کی ہے۔
بھارتی حکام کے مطابق مشتاق زرگر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں متعدد پرتشدد اوردہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔ حکام کے بقول مشتاق زرگر کے القاعدہ اور جیشِ محمد جیسی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔
حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ مشتاق زرگر اس وقت پاکستان میں مقیم ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے بھارت کی وزارتِ داخلہ نے انہیں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے 1967 کے ایک ایکٹ کے تحت دہشت گرد نامزد کیا تھا۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ این آئی اے کی ایک ٹیم جمعرات کی صبح بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے گرمائی صدر مقام سرینگر کے پرانے حصے میں واقع گانی محلہ پہنچی اور وہاں مشتاق زرگر کے آبائی مکان کی دیوار پر وزارتِ داخلہ کے ایک حکم نامے کے مطابق یو اے پی اے کے تحت اٹیچ یعنی ضبط کرنے کا نوٹس لگادیا۔وزارتِ داخلہ نے یہ حکم نامہ 13 فروری 2023 کو جاری کیا تھا۔
البتہ سرینگر کی تاریخی جامع مسجد کے مغربی دروازے سے چند گز کے فاصلے پر واقع اس تین منزلہ مکان کو سیل نہیں کیا گیا ہے۔گنجان آبادی والے اس علاقے میں مشتاق زرگر کے آبائی گھر کے باہر مقامی لوگ ٹولیوں کی صورت میں میں چہ میگوئیاں کرتے نظر آئے لیکن انہوں ںے بات کرنے سے گریز کیا۔
تاہم ایک شخص نے یہ ضرور بتایا کہ این آئی اے ٹیم کی آمد سے پہلے اس پورے علاقے کو مسلح پولیس اہل کاروں نے گھیرے میں لے لیا تھا۔
مشتاق زرگر کےایک قریبی رشتے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ مکان مشتاق زرگر کے والد غلام رسول زرگرکا تھا جو ایک پیشہ ور فوٹو گرافر تھے۔ محکمۂ مال کے ریکارڈ میں اب بھی یہ مکان اُن ہی کے نام پر ہے۔
انہوں نے کہا : "مشتاق زرگر اس جائیدا د کے دیگر کئی ورثا میں شامل ہیں۔ کیا حکام ہم سب کو بے گھر کرکے ناکردہ گناہوں کی سزا دینا چاہتی ہے ؟ "
مشتاق زرگر کون ہیں؟
بھارتی سیکیورٹی فورسز نے مشتاق زرگر کو 15 مئی 1992 کو سرینگر سے گرفتار کیا تھا۔ دسمبر 1999 میں کھٹمنڈو سے نئی دہلی جانے والی پرواز کی ہائی جیکنگ کے بعد اغوا کاروں کے مطالبے پر بھارت نے جن عسکریت پسند رہنماؤں کو رہا کیا تھا ان میں کالعدم جیشِ محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر اور مبینہ طور پر امریکی صحافی ڈینئل پرل کے قتل میں ملوث عمر سعید شیخ کے ساتھ مشتاق زرگر بھی شامل تھے۔
ان تینوں عسکریت پسندوں کو ایک خصوصی پرواز کے ذریعے جنوبی افغانستان کے شہر قندھار پہنچاکر طالبان کے حوالے کیا گیا تھا اور ان کی رہائی کے بدلے اغوا کیے گئے بھارتی طیارے کے 154 مسافروں اور عملے کو بحفاظت بازیاب کرایا گیا تھا۔
بھارت میں اُس وقت قومی جمہوری اتحاد یا این ڈی اے میں شامل بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کی اتحادی جماعتوں کی مخلوط حکومت تھی جس کی سربراہی وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی کررہے تھے۔
اس وقت کی حزبِ اختلاف نے حکومت کے اس فیصلے پرشدید تنقید کی تھی اور آج بھی اس واقعے کا حوالہ دے کرناقدین بی جے پی پر نکتہ چینی کرتے ہیں۔ لیکن بی جے پی کا یہ موقف رہا ہے کہ یہ اقدام اغوا ہونے والے طیارے پر سوار عام بھارتی شہریوں اور عملے کو بچانے کے لیے ناگزیر تھا۔
’مشتاق زرگر کا مکان ضبط کرنے کا قانونی جواز موجود تھا‘
سرینگر میں این آئی اے کے عہدےداروں نے بتایا کہ سرینگر کے گانی محلہ میں دو مرلہ زمین پر بنائے گئے مشتاق زرگر کے آبائی مکان کو یو اے پی اے کی دفعہ 25 کے تحت اٹیچ یا ضبط کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 1990 میں پاکستان نواز العمر مجاہدین کے قیام سے پہلےمشتاق زرگر قوم پرست تنظیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ سے وابستہ تھے اور انہوں نے آٹھ دسمبر 1989 کو اُس وقت کے بھارتی وزیرِ داخلہ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کے اغوا میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ مشتاق زرگر نہ صرف جموں و کشمیر میں دہشت گردی اور اغوا و قتل جیسے سنگین جرائم میں ملوث رہے ہیں بلکہ ان کے القاعدہ ، جیشِ محمد اور ایسی دوسری دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ قریبی روابط رہے ہیں۔
بھارتی حکام کے مطابق مشتاق زرگر پاکستان میں رہ کر مسلسل جموں و کشمیر میں سرگرم عسکریت پسندوں کو شہہ دے رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ مسعود اظہر، عمر سعید شیخ اور مشتاق زرگر نے قندھار میں رہائی ملنے کے بعد اسامہ بن لادن سے بھی ملاقات کی تھی۔
بھارتی وزارتِ داخلہ نے اپنے نوٹی فیکیشن میں کہا تھا کہ مشتاق زرگر نہ صرف بھارت میں بلکہ پوری دنیا میں امن کے لیے ایک خطرہ ہیں۔ اس حکم نامے کے مطابق مشتاق زرگر جموں و کشمیر میں 1990 کی دہائی میں العمر مجاہدین کی جانب سے انجام دی گئی کئی پُر تشدد کارروائیوں میں براہِ راست ملوث تھے۔
العمر مجاہدین نامی جو اب تقریبا" غیر فعال ہوکر رہ گئی ہے بھارتی حکومت کےان الزامات کی تردید کی تھی۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں این آئی اے، اسٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی اور قانون نافذ کرنے والے بعض دوسرے اداروں نے سابق اور موجودہ عسکریت پسندوں، استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی یا علیحدگی پسند جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کی ذاتی ا ورتنظیمی غیر منقولہ جائیدادوں کو سیل یا ضبط کرنے کی مہم شروع کررکھی ہے۔
گزشتہ کئی ماہ کے دوران کی گئی کارروائیوں کے دوران بالخصوص جماعتِ اسلامی جموں وکشمیر کی100 سے زائد املاک ضبط کی گئی ہیں۔ چند ہفتے پہلے این آئی اے نے سرینگر کے راج باغ علاقے میں واقع استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد کُل جماعتی حریت کانفرنس کے صدر دفاتر کو سیل کردیا تھا۔
اس سے پہلے بھارتی حکام نے جنوبی ضلع پُلوامہ میں مفرور قرار دیے گیےجیشِ محمد سے وابستہ ایک مبینہ عسکریت پسند عاشق حسین نینگرو کا ذاتی مکان مسمار کردیا تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں عسکریت پسندوں کے خلاف درج مقدمات کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کےعمل کا ایک حصہ ہیں جبکہ ایسی بعض جائیدادوں کے دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال ہونے کے امکان کے پیشِ نظر کارروائیاں کی جارہی ہیں۔
کُل جماعتی حریت کانفرنس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، نیشنل کانفرنس اور چند دوسری سیاسی جماعتوں نےبھارتی حکام کی ان کارروائیوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔