بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہندووں کی آباد کاری کے مجوزہ منصوبے کے خلاف جمعے کو مختلف شہروں اور قصبوں میں احتجاج ہوا ہے۔
خبر رساں ادارے 'دی ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق سب سے بڑا مظاہرہ وادی کے دارالحکومت سری نگر میں ہوا جہاں سیکڑوں افراد نے شہر کے مختلف علاقوں سے لال چوک کا رخ کیا۔
مظاہرین بھارت سے آزادی کے حق میں نعرے لگارہے تھے۔ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منشتر کی کوشش پر جلوس میں شریک نوجوانوں اور پولیس اہلکاروں کے درمیان تصادم ہوا جس میں بعض افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
'اے پی' کے مطابق پولیس اہلکاروں نے مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ کی جب کہ مظاہرے میں شریک نوجوانوں کے اہلکاروں پر پتھراؤ کیا۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق جمعے کی نماز کے بعد شہر کے کئی دیگر علاقوں میں بھی احتجاج ہوا ہے جس کی اپیل علیحدگی پسند جماعتوں نے کی تھی۔
بھارت کے زیرِ انتظام مسلم اکثریتی کشمیر میں ہندو پنڈتوں کی آباد کاری کے مجوزہ منصوبے کے خلاف عوام اور سیاسی قیادت میں اشتعال پایا جاتا ہے۔
بھارتی حکومت کا کہناہے کہ وہ ان دو لاکھ کشمیری ہندوؤں کی وادی میں دوبارہ آباد کاری کی خواہاں ہے جو 1989ء میں کشمیر پر بھارتی اقتدار کے خلاف مسلح مزاحمت کے آغاز پر جموں اور بھارت کے دیگر ہندو اکثریتی علاقوں کی جانب نقل مکانی کر گئے تھے۔
بھارت کی مرکزی حکومت نے کشمیر کی ریاستی انتظامیہ سے پنڈتوں کی آباد کاری کے لیے زمین مختص کرنے کا کہا ہے جس پر کشمیر کے علیحدگی پسند رہنماؤں نے سخت ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔
وادی کی علیحدگی پسند جماعتوں نے مجوزہ منصوبے کے خلاف ہفتے کو وادی میں پہیہ جام ہڑتال کی اپیل کی ہے۔
کشمیر کی اتحادی حکومت کے وزیرِ اعلیٰ مفتی محمد سعید نے واضح کیا ہے کہ ان پنڈتوں کو انہی علاقوں میں آباد کیا جائے گا جہاں وہ ہجرت سے قبل مقیم تھے۔
وزیرِاعلیٰ نے بھارتی حکومت کی جانب سے ان ہندو خاندانوں کو ایک نئے شہر میں بسانے کے لیے زمین مختص کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر میں "اسرائیل کی طرح کی کوئی آباد کاری نہیں ہوگی"۔
تاہم بھارت کے وزیرِ داخلہ راج ناتھ سندھ نے جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا ہے کہ مرکزی حکومت اپنے فیصلے پر قائم ہے جس کی تفصیلات وقت آنے پر ظاہر کی جائیں گی۔